حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی زندگی کے تمام امور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت پر عمل کرنے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے، خصوصا اس سنت پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے کہ کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچانی چاہیئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ مہمان کے کچھ حقوق ہیں، جو میزبان کے ذمے ہیں، اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں، جو مہمان کے ذمے ہیں۔ نیز کچھ ایسے اہم آداب ہیں، جن کا ہر ایک کو دوسرے کے بارے میں خیال رکھنا چاہیئے۔
ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان حقوق وآداب کو سیکھے اور سمجھے؛ تاکہ وہ دوسروں کے حقوق کو بغیر کسی ایذا اور تکلیف کے، ادا کر سکے۔
ذیل میں ایک واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ سفر کے دوران لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ فرماتے تھے اور حضرت رحمہ اللہ میزبان کی کتنی رعایت کرتے تھے اور اس بات کا کتنا زیادہ خیال رکھتے تھے کہ ان کی وجہ سے میزبان کو کسی قسم کی دشواری ہو۔
رفیق سفر ہمراہ رکھنا
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ میری عادت ہے کہ جب میں سفر کرتا ہوں، تو اپنے ساتھ صرف ایک آدمی کو لیتا ہوں اور داعی کو پہلے سے اطلاع کر دیتا ہوں؛ تاکہ وہ آزاد رہے۔ داعی پر صرف میرا اور اس آدمی کا بار ہوتا ہے۔
میزبان پر بار نہ ڈالنا
پھر بعض دفعہ راستہ میں اگر بعض لوگ محبت کی وجہ سے ساتھ ہو لیتے ہیں، تو میں ان سے صاف کہہ دیتا ہوں کہ آپ اپنا انتظام خود کریں۔ جہاں میرا قیام ہوگا، وہاں آپ قیام بھی نہ کریں؛ بلکہ سرائے وغیرہ میں جہاں آسانی ہو، وہاں ٹھہریں اور بازار سے اپنے کھانے کا انتظام کریں اور ملاقات کے لیے صبح وشام میرے پاس آ جایا کریں، جس سے میزبان کو یہ معلوم نہ ہو کہ آپ میرے ساتھ ہیں۔
پھر اگر وہ از خود آپ کی دعوت کرے، تو آپ اپنے تعلقات کو دیکھ کر دعوت منظور کریں یا رد کریں۔ میرے طفیلی بن کر کھانا نہ کھاویں۔
اگر کسی وقت میزبان مجھ سے کہنے لگتا کہ میں آپ کے ان ہمراہیوں کی بھی دعوت کرنا چاہتا ہوں، تو میں صاف کہہ دیتا کہ میرے ساتھ کوئی نہیں۔ میں نے کسی کو نہیں بلایا۔ (سیرتِ اشرف ۱ /۲۱۲-۲۱۳)
نمازِ سفر کی باقاعدگی
سفر میں ہمیشہ نماز پابندی وقت کے ساتھ ادا فرماتے تھے اور اس میں بفضلہ تعالی کبھی دقّت واقع نہ ہوئی؛ بلکہ اکثر ریل کے ڈبہ کے اندر بھی بڑی بڑی، لمبی لمبی جماعتوں کے ساتھ نمازیں برابر ہوتی رہتیں؛ کیونکہ مسافروں کے ہجوم کے باوجود حضرت رحمہ اللہ کے ڈبہ میں اکثر وبیشتر جگہ فارغ ہی رہتی، جس سے سفر بَہ اطمینان کٹتا۔
سفر میں نماز قصر ضرور فرماتے۔ بسا اوقات جلدی کی وجہ سے سنتیں چھوڑ دیتے؛ کیونکہ فرمایا کرتے کہ سفر میں سنت کا درجہ نفل کا ہو جاتا ہے۔ ضرورت کی حالت میں بالکل حذف کر دینا بھی جائز ہے اور ضرورت کے موقع پر بھی شرعی رخصتوں پر عمل نہ کرنا اپنے اوپر بلا ضرورت تعب ڈالنا ہے، جو ایک درجہ میں حق تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ (سیرتِ اشرف ۱ /۲۱۵-۲۱۶)