علمائے آخرت کی بارہ علامات
ساتویں علامت:
ساتویں علامت علمائے آخرت کی یہ ہے کہ اس کو باطنی علم، یعنی سلوک کا اہتمام بہت زیادہ ہو۔ اپنی اصلاحِ باطن اور اصلاحِ قلب میں بہت زیادہ کوشش کرنے والا ہو کہ یہ علومِ ظاہریہ میں بھی ترقی کا ذریعہ ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو اپنے علم پر عمل کرے، حق تعالی شانہ اس کو ایسی چیزوں کا علم عطا فرماتے ہیں، جو اس نے نہیں پڑھیں۔
پہلے انبیاء علیہم السلام کی کتابوں میں ہے کہ اے بنی اسرائیل! تم یہ مت کہو کہ علوم آسمان پر ہیں، ان کو کون اتارے؟ یا وہ زمین کی جڑوں میں ہیں، ان کو کون اوپر لائے؟ یا وہ سمندروں کے پار ہیں، کون ان پر گزرے؛ تاکہ ان کو لائے؟ علوم تمہارے دلوں کے اندر ہیں۔
تم میرے سامنے روحانی ہستیوں کے آداب کے ساتھ رہو۔ صدّیقین کے اخلاق اختیار کرو، میں تمہارے دلوں میں سے علوم کو ظاہر کر دوں گا؛ یہاں تک کہ وہ علوم تم کو گھیر لیں گے اور تم کو ڈھانک لیں گے اور تجربہ بھی اس کا شاہد ہے کہ اہل اللہ کو حق تعالیٰ شانہ وہ علوم اور معارف عطا فرماتا ہے کہ کتابوں میں تلاش سے بھی نہیں ملتے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد، جس کو حق تعالیٰ شانہ سے نقل فرماتے ہیں کہ میرا بندہ کسی ایسی چیز کے ساتھ مجھ سے تقرّب حاصل نہیں کر سکتا، جو مجھے زیادہ محبوب ہو ان چیزوں سے، جو میں نے اس پر فرض کیں (جیسا کہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ۔ یعنی جتنا تقرّب فرائض کے اچھی طرح ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے، ایسا تقرّب دوسری چیزوں سے نہیں ہوتا) اور بندہ نوافل کے ساتھ بھی میرے ساتھ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس کو محبوب بنا لیتا ہوں، تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے، تو میں اس کو پورا کرتا ہوں اور وہ کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے، تو اس کو پناہ دیتا ہوں۔ (بخاری شریف) یعنی اس کا چلنا پھرنا، دیکھنا سننا، سب کام میری رضا کے مطابق ہو جاتے ہیں۔
اور بعض حدیثوں میں اس کے ساتھ یہ مضمون بھی آیا ہے کہ جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرتا ہے، وہ مجھ سے اعلانِ جنگ کرتا ہے۔
اور چونکہ اولیاء اللہ کا غور وفکر سب ہی حق تعالی شانہ کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے قرآن پاک کے دقیق علوم ان کے قلوب پر منکشف ہو جاتے ہیں، اس کے اسرار ان پر واضح ہو جاتے ہیں؛ بالخصوص ایسے لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کے ذکر وفکر کے ساتھ ہر وقت مشغول رہتے ہیں اور ہر شخص کو اس میں سے حسبِ توفیق اتنا حصہ ملتا ہے، جتنا کہ عمل میں اس کا اہتمام اور اس کی کوشش ہوتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بڑی طویل حدیث میں علمائے آخرت کا حال بیان فرمایا ہے، جس کو ابن قیم نے ‘مِفْتَاحُ دَارِ السَّعَادَةِ’ میں اور ابو نعیم نے ‘حِلْیَہ’ میں ذکر فرمایا ہے۔
اس میں فرماتے ہیں کہ قلوب بَمنزلہ برتن کے ہیں اور بہترین قلوب وہ ہیں، جو خیر کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہیں۔ علم کا جمع کرنا مال کے جمع کرنے سے بہتر ہے کہ علم تیری حفاظت کرتا ہے اور مال کی تجھ کو حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے۔ مال کا نفع اس کے زائل ہونے (خرچ کرنے) سے ختم ہو جاتا ہے؛ لیکن علم کا نفع ہمیشہ ہمیشہ باقی رہتا ہے (عالم کے انتقال سے بھی ختم نہیں ہوتا کہ اس کے ارشادات باقی رہتے ہیں)۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا کہ میرے سینے میں علوم ہیں؛ کاش! اس کے اہل ملتے؛ مگر میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں، جو دین کے اسباب کو دنیا طلبی میں خرچ کرتے ہیں یا ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں، جو لذتوں میں منہمک ہیں، شہوتوں کی طلب کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں یا مال کے جمع کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
غرض یہ طویل مضمون ہے، جس کے چند فقرے یہاں نقل کیے ہیں۔ (فضائلِ صدقات، ص ۴۹۲-۴۹۴)