امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد

دنیا میں دین قائم کرنے کے لیے الله تعالی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چار بنیادی ذمہ داریاں دے کے بھیجا تھا۔

وہ چار ذمہ داریاں یہ تھیں:

(۱) امت کو قرآن مجید کی تلاوت کا صحیح طریقہ سکھانا (۲) انہیں دین کی تعلیمات اور احکامات سکھانا (۳) انہیں سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانا (۴) ان کی اصلاح کرنا یعنی ان کے اخلاق وعادات کو درست کر کے ان کی زندگی کو پاکیزہ بنانا۔

جب امت اپنی زندگی میں ان چاروں ذمہ داریوں کو ادا کرےگی، تو دین قائم رہےگا اور دنیا میں پھیلتا رہےگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگوں کو قرآن مجید کی صحیح تلاوت، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے احکام پر عمل کی اہمیت سکھائی جاتی ہے اور وہ اپنی زندگیوں کی اصلاح کرتے ہیں اور اپنے اخلاق کو درست کرتے ہیں، تو ان کے دلوں میں الله تعالی اور دین سے ایک مضبوط تعلق پیدا ہوگا اور اس سے ان کی زندگی پر مثبت اثر پڑےگا؛ چنانچہ وہ خود دین پر پابندی سے قائم رہیں گے اور دین کی طرف دوسروں کی رہبری بھی کریں گے۔

نیز اگر وہ لوگوں کو دین کے کسی حکم پر غلط طریقے سے عمل کرتے ہوئے یا الله تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھیں گے، تو چونکہ وہ خود دین کی صحیح فہم رکھتے ہیں اور دین پر پختگی سے قائم رہتے ہیں؛ لہذا وہ معاشرے میں رائج خرافات ورسومات اور خلاف شرع امور کی اصلاح کرنے پر اچھی طرح قادر ہوں گے اور لوگوں کو صحیح راہ دکھا سکیں گے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا چار ذمہ داریوں کے سلسلے میں امت کا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے طریقوں کی اتباع ہی امت میں دین کے تحفظ کی اساس اور بنیاد ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بعض علامات اور نشانیاں بیان فرمائیں، جو قیامت سے پہلے امت میں ظاہر ہوں گی۔ ان علامتوں کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے فرمایا:

یہ علامتیں اس وقت ظاہر ہوں گی، جب لوگوں سے دین کا علم اٹھا لیا جائےگا۔ زیاد بن لبید رضی الله عنہ نام کے ایک صحابی نے پوچھا: اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! امت سے دین کا علم کیسے اٹھا لیا جائےگا، جب کہ ہم اِس وقت قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھا رہے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیں گے، اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہےگا؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حیرت زدہ ہو کر ان سے فرمایا: اے زیاد! میں تم کو مدینہ منورہ کے ذہین لوگوں میں سے سمجھتا ہوں (دوسرے لفظوں میں تم کو یہ بات کیسے سمجھ میں نہیں آئی؟) کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ یہود ونصاریٰ اپنی کتابیں پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں؛ لیکن دین اور اس کے احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان کے پاس ان کے دین کا علم باقی نہیں رہا۔ (سنن ابن ماجہ، الرقم: ۴۰۴۸)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کی گمراہی اور اپنے دین کے علم سے ان کی ناواقفیت کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے دین کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا؛ اگرچہ وہ اپنی کتابیں پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں؛ لیکن دین کے احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دین ان کی زندگیوں سے نکل گیا۔

ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت امت کی کیا حالت ہوگی! جب وہ حج کرنا چھوڑ دیں گے، نماز ادا نہ کریں گے، زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی کریں گے، میت کو اسلامی طریقے کے مطابق غسل وکفن نہیں دیں گے اور قربانی کے وقت قربانی سے گُریز کریں گے وغیرہ۔ ان کے دین کا کیا بنےگا! یقینا تھوڑی ہی مدت میں امت سے دین نکل جائےگا۔

اگرچہ مسلمان ان فرائض وواجبات کے بارے میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کو پڑھتے رہیں گے، پھر بھی عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان عبادات کے مسائل واحکام بھول جائیں گے۔

حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ دین کے زوال کا اصل سبب امت کا دین پر عمل نہ کرنا ہے اور دین کی بقا کا اصل سبب امت کا دین پر عمل کرنا ہے اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔ جب تک امت دین پر عمل کرتی رہےگی اور اسے دوسروں تک پہنچاتی رہےگی، دین پوری امت میں زندہ، قائم اور محفوظ رہےگا۔

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۹‏

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ …