حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ماضی قریب کے ایک بڑے عالمِ دین اور بزرگ تھے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سَن ۱۲۸۰ھ میں تھانہ بھون میں پیدا ہوئے اور ۱۶ رجب ۱۳۶۲ھ (بمطابق ۲۰ جولائی ۱۹۴۳) کو ۸۳ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کی والدہ ماجدہ وفات پا گئی؛ لہذا ان کے والد ماجد نے ان کی پرورش کی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن ہی سے تقویٰ سے نوازا تھا؛ چنانچہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بارہ سال کی عمر سے ہی نمازِ تہجد کے پابند تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرما لیا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے دین کے مختلف علوم وفنون میں تقریبا ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، جن میں تفسیر، حدیث، تصوف، فقہ، تجوید وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں بے پناہ برکت رکھی تھی۔
جب ہم حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ شریعت پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے اور اہتمام وپابندی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر عمل کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں عالمی طور پر مقبولیت عطا کی تھی۔
ذیل میں ہم حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے چند ایسے واقعات ذکر کریں گے، جن سے ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ سفر کے دوران حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ عمل کیا تھا اور اللہ کے اس عظیم ولی نے ہر لمحے شریعت وسنت کو کس طرح قائم رکھا۔
قلّیوں کو مناسب فیس دینا
سامان اٹھوانے سے قبل قلّیوں سے اجرت طے فرما لیتے، پھر سامان اٹھواتے؛ کیونکہ آپ ریلوے کی مقرر کردہ اجرت پر سامان اٹھوانا جائز نہ سمجھتے تھے؛ کیونکہ فرمایا کرتے تھے کہ دستور کوئی چیز نہیں ہے۔ مزدور کا خوش کرنا ضروری چیز ہے۔ (سیرتِ اشرف، ص ۲۱۰)
سامان کی فیس دینا
آپ بلا ادائے محصول کوئی چیز نہ لے جاتے۔ اگر ذرا بھی کسی چیز میں شبہ ہوتا کہ یہ مقررہ وزن سے زائد ہوگی، تو آپ اسے فوراً وزن کراتے اور اس کا محصول ادا کرتے۔
اِس کا اتنا اہتمام تھا کہ ایک مرتبہ سہارنپور سے کانپور جاتے ہوئے کچھ گنّے ساتھ تھے۔ جب ادائیگی محصول کے لیے تلوانے لگے، تو کوئی تولے نہیں؛ یہاں تک کہ غیر مسلم ملازمین ریلوے بھی کہیں کہ حضرت! آپ یوں ہی لے جائیے۔ تلوانے کی ضرورت نہیں۔ ہم گارڈ کو کہہ دیں گے۔
فرمایا: یہ گارڈ کہاں تک جائےگا؟ کہا گیا: غازی آباد تک۔ فرمایا: غازی آباد سے آگے کیا ہوگا؟ کہا گیا کہ یہ دوسرے گارڈ سے کہہ دےگا اور وہ کانپور تک پہنچا دےگا، جہاں آپ کا سفر ختم ہو جائےگا۔
فرمانے لگے: نہیں، وہاں ختم نہ ہوگا؛ بلکہ آگے ایک اور سفرِ آخرت بھی ہے۔ وہاں کا انتظام کیا ہوگا؟
یہ سن کر سب انگشت بدنداں (خاموش) رہ گئے، جن میں تعلیم یافتہ ہندو بابو بھی تھے۔ کہنے لگے کہ اس زمانہ میں بھی خدا کے ایسے ایمان دار بندے موجود ہیں، جو خدا سے ڈر کر احتیاط کرتے ہیں۔ (سیرتِ اشرف، ص ۲۱۱)
کرایہ کی ادائیگی
اس میں بھی آپ بڑے محتاط تھے۔ بلا ٹکٹ اور بلا ادائے کرایہ سفر ہرگز نہ فرماتے تھے۔ نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتے۔
ایک مرتبہ ایک طالب علم حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے تھانہ بھون آیا۔ آپ اس وقت سفر پر جا رہے تھے، اس لیے وہ تنگی وقت کی وجہ سے گارڈ کو کہہ کر بلا ٹکٹ حضرت کے ساتھ سوار ہو گیا اور دوسرے اسٹیشن نانوتہ پر گارڈ کو کرایہ دینے لگا، تو اس نے کہا: معمولی کرایہ ہے۔ تم غریب آدمی ہو، جاؤ۔
اس نے آ کر حضرت سے کہا کہ یہ معاملہ ہے، تو آپ نے فرمایا کہ گارڈ ریلوے کمپنی کا ملازم ہے۔ ریل کا مالک نہیں ہے۔ اس لیے یہاں تک کا کرایہ برابر تمہارے ذمہ ہے۔ اتنے داموں کا ٹکٹ لے کر اسے پھاڑ دو؛ تاکہ کمپنی کا حق ادا ہو جائے اور تم حق العباد سے بری ہو جاؤ۔
اس ڈبہ میں ایک انگریزی خوان آریہ مبلغ بھی بیٹھا تھا۔ اس نے یہ ساری گفتگو سن کر کہا کہ میں تو خوش ہوا تھا کہ اس نے غریب پر ترس کھایا ہے؛ مگر آپ کی تقریر سن کر محسوس کرتا ہوں کہ میری خوشی بے ایمانی کی تھی۔ (سیرتِ اشرف، ص ۲۱۱-۲۱۲)
ریلوے والوں کا اعتماد
اسی وجہ سے حضرت اور حضرت کے منتسبین کے متعلق ریلوے والوں کا اعتماد اتنا بڑھ گیا تھا کہ جب کوئی ثقہ صورت تھانہ بھون کی طرف جاتا ہوا دیکھتے، تو نہ اس کا ٹکٹ چیک کرتے اور نہ ہی اسے اسباب تلوانے پر مجبور کرتے یا روکتے ٹوکتے؛ بلکہ بڑے جزم سے کہتے کہ یہ تھانہ بھون مولانا کے پاس جا رہے ہیں۔ وہاں جانے والے نہ بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں اور نہ سامان تلوائے بغیر سوار ہوتے ہیں۔ (سیرتِ اشرف، ص ۲۱۲)