فضائلِ اعمال – ۹

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قصہ

حضرت عمر رضی الله عنہ جن کے پاک نام پر آج مسلمانوں کو فخر ہے اور جن کے جوش ایمانی سے آج تیرہ سو برس بعد تک کافروں کے دل میں خوف ہے۔ اسلام لانے سے قبل مسلمانوں کے مقابلہ اور تکلیف پہنچانے میں بھی ممتاز تھے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قتل کے درپے رہتے تھے۔

ایک روز کفار نے مشورہ کی کمیٹی قائم کی کہ کوئی ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے؟ عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ میں کروں گا۔ لوگوں نے کہا کہ بیشک تم ہی کر سکتے ہو۔ عمر رضی الله عنہ تلوار لٹکائے ہوئے اٹھے اور چل دیئے۔

اسی فکر میں جا رہے تھے کہ ایک صاحب قبیلہ زہرہ کے، جن کا نام حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ ہے اور بعضوں نے اور صاحب لکھے ہیں، ملے۔ انہوں نے پوچھا کہ عمر! کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے قتل کے فکر میں ہوں (نعوذ بالله)۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بنو ہاشم اور بنو زہرہ اور بنو عبد مناف سے کیسے مطمئن ہو گئے؟ وہ تم کو بدلہ میں قتل کر دیں گے۔ اس جواب پر بگڑ گئے اور کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے: تُو بھی بے دین یعنی مسلمان ہو گیا۔ لا پہلے تجھی کو نمٹا دوں۔

یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بھی یہ کہہ کر کہ ہاں، میں مسلمان ہو گیا ہوں، تلوار سنبھالی۔ دونوں طرف سے تلوار چلنے کو تھی کہ حضرت سعد رضی الله عنہ نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لے۔ تیری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔

یہ سننا تھا کہ غصہ سے بھر گئے اور سیدھے بہن کے گھر گئے۔ وہاں حضرت خبّاب رضی الله عنہ جن کا ذکر نمبر 6 پر گزرا، کِواڑ بند کیے ہوئے ان دونوں میاں بیوی کو قرآن شریف پڑھا رہے تھے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے کواڑ کُھلوائے۔ ان کی آواز سے حضرت خباب رضی الله عنہ تو جلدی سے اندر چھپ گئے اور وہ صحیفہ بھی جلدی میں باہر ہی رہ گیا، جس پر آیاتِ قرآنی لکھی ہوئی تھیں۔ ہمشیرہ نے کواڑ کھولے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی، جس کو بہن کے سر پر مارا، جس سے سر سے خون بہنے لگا اور کہا کہ اپنی جان کی دشمن! تُو بھی بد دین ہو گئی؟

اس کے بعد گھر میں آئے اور پوچھا کہ کیا کر رہے تھے اور یہ آواز کس کی تھی؟ بہنوئی نے کہا کہ بات چیت کر رہے تھے۔ کہنے لگے: کیا تم نے اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لیا؟ بہنوئی نے کہا کہ اگر دوسرا دین حق ہو، تب؟ یہ سننا تھا کہ ان کی داڑھی پکڑ کر کھینچی اور بے تحاشا ٹوٹ پڑے اور زمین پر گرا کر خوب مارا۔ بہن نے چھڑانے کی کوشش کی، تو ان کے منھ پر ایک طمانچہ اس زور سے مارا کہ خون نکل آیا۔

وہ بھی آخر عمر ہی کی بہن تھیں۔ کہنے لگیں کہ عمر! ہم کو اس وجہ سے مارا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہو گئے، بیشک ہم مسلمان ہو گئے ہیں، جو تجھ سے ہو سکے، تو کر لے۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ کی نگاہ اس صحیفہ پر پڑی، جو جلدی میں باہر رہ گیا تھا اور غصہ کا جوش بھی اس مار پیٹ سے کم ہو گیا تھا اور بہن کے اس طرح خون میں بھر جانے سے شرم سی بھی آ رہی تھی۔ کہنے لگے کہ اچھا مجھے دکھلاؤ، یہ کیا ہے؟

بہن نے کہا کہ تُو ناپاک ہے اور اس کو ناپاک ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ ہر چند اصرار کیا؛ مگر وہ بے وضو اور غسل کے دینے کو تیار نہ ہوئیں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے غسل کیا اور اس کو لے کر پڑھا۔ اس میں سورۃ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ اس کو پڑھنا شروع کیا اور إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ‎﴿١٤﴾‏‏ تک پڑھا تھا کہ حالت ہی بدل گئی۔ کہنے لگے کہ اچھا، مجھے بھی محمد صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلو۔

یہ الفاظ سن کر حضرت خبّاب رضی الله عنہ اندر سے نکلے اور کہا کہ اے عمر! تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ کل شب پَنْجْشَنْبہ میں حضور اقدس صلی الله علیہ سلم نے دعا مانگی تھی کہ یا الله! عمر اور ابو جہل میں جو تجھے زیادہ پسند ہو، اس سے اسلام کو قوّت عطا فرما (یہ دونوں قوّت میں مشہور تھے)۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی۔

اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جمعہ کی صبح کو مسلمان ہوئے۔

ان کا مسلمان ہونا تھا کہ کفار کے حوصلے پست ہونا شروع ہو گئے؛ مگر پھر بھی یہ نہایت مختصر جماعت تھی اور وہ سارا مکّہ؛ بلکہ سارا عرب، اس لیے اور بھی جوش پیدا ہوا اور جلسے کر کے، مشورہ کر کے ان حضرات کو ناپید کرنے کی کوشش ہوتی تھی اور طرح طرح کی تدبیریں کی جاتی تھیں، تاہم اتنا ضرور ہوا کہ مسلمان مکّہ کی مسجد میں نماز پڑھنے لگے۔

حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کا اسلام لانا مسلمانوں کی فتح تھی اور ان کی ہجرت مسلمانوں کی مدد تھی اور ان کی خلافت رحمت تھی ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۱۸-۲۰)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۱۲

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام رات روتے رہنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ …