شریک حیات کا انتخاب
شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت ہر شخص کو بعض افکار و خدشات لاحق ہوتے ہیں۔
لڑکے کو اچھی بیوی کے انتخاب کی فکر ہوتی ہے جو اس کے مزاج کے مطابق ہو؛ تاکہ وہ خوش گوار زندگی گزار سکے۔ اسی طرح اس کو یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ ایسی بیوی کا انتخاب کرے جو اس کے بچوں کے لیے اچھی ماں بن سکے اور وہ اس کے خاندان والوں کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ رہ سکے۔
دوسری طرف لڑکی کو بھی ایک ایسے شوہر کے انتخاب کی فکر ہوتی ہے، جو اس کی دینی اور دنیوی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کر سکے اور مالی اعتبار سے وہ اس کو تحفظ فراہم کر سکے۔
عام طور پر نکاح کے وقت لوگ ان چیزوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں؛ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ نکاح زندگی کا ایک نیا سفر ہے؛ لہذا شریک حیات کا انتخاب یا تو زندگی میں مسرتوں اور خوشیوں کا باعث بنےگا یا غم، تکلیف اور زندگی بھر کے افسوس اور ندامت کا ذریعہ بنےگا۔
نیک شریکِ حیات کا انتخاب
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ نکاح کے وقت جیسے ہم ان باتوں کی طرف دھیان کرتے ہیں کہ وہ انسان جس سے شادی ہونے والی ہے ایک شریف گھرانے سے ہو، ظاہری اعتبار سے پُرکشش ہو اور اس کی مالی حیثیت اچھی ہو؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری سب سے اہم اور بنیادی فکر یہ ہونی چاہیئے کہ اس انسان کے اندر دیندای اور تقوی ہو۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چار چیزوں میں سے کسی ایک چیز کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے:- یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کی خاندانی حیثیت کی وجہ سے یا اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یا اس کے دین اور دینداری کی وجہ سے؛ لہذا (شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت) تم دین دار بیوی کا انتخاب کرکے کامیابی حاصل کرو۔ (اگر تم نیک بیوی کا انتخاب نہیں کروگے)، تو تم بعد میں افسوس کروگے۔ (صحیح البخاری)
صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین عظام رحمۃ الله علہیم اپنی اولاد کے لیے نیک شریک حیات کے انتخاب کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر شوہر متقی اور پرہیزگار ہوگا، تو وہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرےگا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرےگا۔ اس کے بر خلاف اگر شوہر دین دار اور متقی نہیں ہوگا، تو وہ اپنی بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرےگا اور بسا اوقات اس کے ساتھ بد سلوکی کرےگا یا اس پر ظلم کرےگا۔
حضرت حسن بصری رحمہ الله کی نصیحت
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حسن بصری رحمہ الله کے پاس آیا۔ اس نے کہا: میرے پاس میری بیٹی کے لیے بہت سے نکاح کے پیغامات آئے ہیں، برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کس کا پیغام قبول کروں؟
حضرت حسن بصری رحمہ الله نے جواب دیا: تم اپنی بیٹی کا نکاح ایسے شخص سے کرو، جس کے دل میں الله کا خوف ہو۔ پھر انہوں نے اس کی وجہ بیان کی کہ اگر وہ شخص اس کو پسند کرےگا، تو وہ اس کی عزت اور قدر کرےگا اور اگر وہ اسے ناپسند کرےگا، تو کم ازکم اس پر ظلم نہیں کرےگا۔ (مرقات شرح مشکاۃ)
حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا اپنی بیٹی کا نکاح کر دینا
ذیل میں حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا ایک اثر انگیز واقعہ نقل کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کے لیے کیسے شریک حیات شوہر کا انتخاب فرمایا:
ایک دفعہ یزید بن معاویہ نے حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کو ان کی صاحبزادی سے نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت ابو درداء رضي الله عنه نے یزید کا پیغام قبول نہیں کیا، باوجود یہ کہ یزید حاکمِ وقت تھا۔
اس کے بعد یزید کا ایک خادم جو ایک نیک شخص تھا، یزید کے پاس آیا اور اس سے کہا: آپ مجھے اجازت دیں کہ میں حضرت ابو درداء کو نکاح کا پیغام بھیجوں کہ وہ اپنی بیٹی سے میرا نکاح کرا دیں۔
یزید کو غصہ آیا اور اس نے کہا: یہاں سے نکل جا! تیرا ناس ہو! لیکن اس شخص نے کہا: براہ کرم مجھے اجازت دے دیں، الله آپ کو خوش رکھے! بالآخر یزید نے اس کو اجازت دے دی۔
پھر اس شخص نے حضرت ابو درداء کے پاس نکاح کا پیغام بھجوایا، حضرت ابو درداء نے اس کا پیغام قبول فرما لیا اور اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا۔
یہ خبر لوگوں میں مشہور ہو گئی اور لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ کیسے یزید کا رشتہ قبول نہیں ہوا اور اس کے ایک غریب خادم کا رشتہ قبول ہو گیا۔
جب حضرت ابو درداء رضی الله عنہ سے اس کے بارے سوال کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنی بیٹی درداء کے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ غور وفکر کیا کہ اگر میں اس کا نکاح یزید سے کرا دوں (تو اس کی دینی حالت کیسی رہے گی)۔
پھر حضرت ابو درداء رضی الله عنہ نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا:
تم سوچو، اگر میں یزید سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیتا، تو پہلی رات میں میری بیٹی کا کیا حال ہوتا، جب وہ یزید کے عالیشان محل میں داخل ہوتی اور اپنے سامنے بے شمار خادموں اور نوکروں کو دیکھتی، نیز اس کی آنکھوں کے سامنے بے پناہ دولت وثروت چمک رہی ہوتی۔ صرف یہ سوچ کر کہ اگر یہ میری بیٹی کی پہلی رات کا حال ہوگا کہ وہ دنیا کے مال ودولت سے کس قدر متاثر ہوگی، تو اس دن اس کے دین کا کیا حال ہوگا (لہذا اگر اس دن اس کے دین خطرہ کے اندر پڑےگا، تو اس کے مستقبل کی پوری زندگی کا پھر کیا حال ہوگا، اس لیے میں نے اس کا نکاح یزید سے نہیں کرایا؛ بلکہ میں نے اس کے لیے ایک غریب دین دار آدمی کا رشتہ قبول کر لیا)۔ (حلیۃ الاولیاء ١/٢٨٦)