زکوٰۃ کے چند اہم مسائل
(۱) شریعت نے ان لوگوں پر زکوٰۃ کو فرض کیا، جو نصاب کے مالک ہیں۔ نصاب کی مقدار ان تمام مالوں سے حساب لگایا جائےگا، جن پر زکوٰۃ فرض کیا گیا (مثلاً سونا، چاندی اور مالِ تجارت)۔ البتہ زکوٰۃ کے حساب میں حوائج اصلیہ (زندگی کی بنیادی ضروریات) کو شامل نہیں کیا جائےگا۔ حوائج اصلیہ میں گھر، سواری، فرنیچر، استعمال میں آنے والی اشیاء وغیرہ داخل ہیں۔
(۲) انسان کے لیے اپنے اصول (مثلاً والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) اور اپنے فروع (مثلاً بیٹے، بیٹی، پوتے، پوتی، نواسے، نواسی وغیرہ) کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔
(۳) زکوٰۃ صرف ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے، جو زکوۃ کے مستحق ہیں۔ مستحقِ زکوٰۃ وہ غریب مسلمان ہے، جس کے پاس زکوٰۃ کے نصاب کے برابر مال نہ ہو؛ چناں چہ مسجد یا مدرسہ کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ وہ غریب مسلمان نہیں ہے۔ اسی طرح میت کی تدفین وغیرہ کے لیے زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ میت مستحقِ زکوٰۃ نہیں ہے۔
(۴) ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کو زکوٰۃ دے دے، جن کے متعلق وہ یہ جانتا ہے کہ وہ مستحقِ زکوٰۃ نہیں ہیں، تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
البتہ اگر کوئی شخص کسی کو زکوٰۃ کا مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دے دے؛ لیکن بعد میں اس کو معلوم ہو جائے کہ وہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے، تو اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائےگی۔
(۵) زکوٰۃ ادا کرتے وقت اس بات کا اہتمام کریں کہ “تملیک” کی شرط پائی جائے (یعنی کسی غریب مسلمان کو زکوٰۃ کی رقم یا سامان دے کر اس کو اس کا مالک بنا دیا جائے)۔ اگر تملیک کی شرط پائی جائے، تو زکوٰۃ ادا ہوگی؛ ورنہ نہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی غریب آدمی کو کھانے کی دعوت دے اور اسے کھانا کھلائے، تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ غریب کو اس کھانے کا مالک نہیں بنایا گیا۔
(۶) زکوٰۃ نقد یا سامان کی شکل میں دی جا سکتی ہے۔ اگر زکوٰۃ سامان کی شکل میں دی جائے، تو اوسط درجے کا سامان دینا چاہیے۔ گھٹیا اور ادنی درجے کا سامان دینا زکوٰۃ کے مقصود کے خلاف ہے۔
اگر کوئی شخص ادنی درجے کا سامان زکوٰۃ کے طور پر دے اور اس کی قیمت بازار کی قیمت سے زیادہ لگائے، تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا؛ بل کہ اس چیز کی بازار میں جو قیمت ہوگی، اس کے مطابق اس کی زکوٰۃ ادا ہوگی۔
(۷) اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ آپ اس رقم سے کم زکوۃ نہ دیں، جو آپ پر واجب ہے۔ اگر آپ زیادہ دیں، تو بہتر ہوگا۔
(۸) جب کوئی شخص زکوٰۃ کے نصاب (یعنی مال کی کم سے کم مقدار، جس پر زکوٰۃ واجب ہے) کے بقدر مال کا مالک ہو جائے اور اس مال پر پورا ایک قمری سال گزر جائے، تو زکوٰۃ دینا واجب ہے؛ لہٰذا جب زکوٰۃ کی تاریخ آ جائے، تو زکوٰۃ کا حساب کریں۔
(۹) زکوٰۃ کی تاریخ آنے کے بعد، شریعت نے ادائیگئ زکوٰۃ کے لیے پورے ایک سال کی مہلت دی ہے؛ اس لیے ہر صاحبِ نصاب کو چاہیئے کہ وہ اپنی زکوٰۃ آئندہ سال کی زکوٰۃ کی تاریخ سے پہلے ادا کر دے۔
اگر آئندہ سال کی زکوٰۃ کی تاریخ آ گئی اور اب تک اس نے گذشتہ سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی، تو زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔