قربانی کی سنتیں اور آداب

(۱) دین اسلام میں قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے؛ چنانچہ قرآن کریم میں قربانی کا خصوصی ذکر آیا ہے، نیز قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں قربانی کی بڑی اہمیت بیان کی گئی اور اس کی بہت سی فضیلتیں بھی وارد ہوئی ہیں۔

الله سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ (سورة الحج: ۳۷)

الله تعالیٰ کے پاس نہ ان کا (یعنی قربانی کے جانوروں کا) گوشت پہونچتا ہے اور نہ ان کا خون؛ لیکن ان کے پاس تمہارا تقویٰ (دل کا اخلاص اور نیکی) پہونچتا ہے۔

عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال: قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله ما هذه الأضاحي؟ قال: سنة أبيكم إبراهيم عليه السلام قالوا: فما لنا فيها؟ يا رسول الله قال: بكل شعرة حسنة قالوا: فالصوف يا رسول الله قال: بكل شعرة من الصوف حسنة (سنن ابن ماجه، الرقم: ۳۱۲۷)[۱]

حضرت زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: اے الله کے رسول ! یہ قربانی کیا ہے؟ (قربانی کی کیا حقیقت ہے؟) آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: (قربانی) تمہارے باپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: اے الله کے رسول! ہمیں اس سے کیا (ثواب) ملےگا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (قربانی کے جانور پر جتنے بال ہو تم کو) ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ملےگی۔ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: اے الله کے رسول! (جس جانور پر اون ہو، تو ہمیں) اون کے بدلہ کیا ملےگا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ (تم کو) ایک نیکی ملےگی۔

(۲) عید الاضحی کے دن الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل اور سب سے پسندیدہ عمل خون بہانا ہے (یعنی قربانی کا جانور ذبح کرنا)۔

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدمَ إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض فطيبوا بها نفسا (سنن الترمذي، الرقم: ۱٤۹۳)[۲]

حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”قربانی کے دنوں میں الله تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کا جانور ذبح کرنے) سے زیادہ کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئےگا (تاکہ میزانِ عمل پر وزن کیا جائے)، قربانی الله تعالیٰ کے یہاں پہونچتی ہے (یعنی مقبول ہوتی ہے) اس سے پہلے کہ اس کا خون زمین پر گر جائے؛ لہذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔“

(۳) قربانی کے دن سے پہلے اور قربانی کرنے کے وقت میں قربانی کے جانور پر سختی نہ کریں اور کسی بھی طریقے سے اس کو ضرر نہ پہونچائیں؛ بلکہ اس کے ساتھ شفقت ونرمی کا برتاؤ کریں۔

عن شداد بن أوس رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله تبارك وتعالى كتب الإحسان على كل شيء فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته (صحيح مسلم، الرقم: ۱۹۵۵)

حضرت شدّاد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا؛ لہذا جب تم (جہاد میں کسی کافر کو) قتل کرو، تو اچھی طرح قتل کرو اور جب تم (جانور کو) ذبح کرو، تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو جلدی ذبح کر کے اس کو راحت پہنچاؤ۔

(٤) جس شخص کے پاس مالی وسعت ہو، اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابۂ کرام رضی الله عنہم اور امت کے ائمہ، اولیاء اور نیک لوگوں کی طرف سے نفلی قربانی کرے۔

عن علي رضي الله عنه أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم والآخر عن نفسه فقيل له فقال: أمرني به يعني النبي صلى الله عليه وسلم فلا أدعه أبدا (سنن الترمذي، الرقم: ۱٤۹۵)[۳]

حضرت علی رضی الله عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ہر سال قربانی کے دنوں میں) دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے۔ ایک (دنبہ وہ) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے (ذبح کرتے تھے) اور دوسرا (دنبہ وہ) اپنی طرف سے ذبح کرتے تھے۔ تو کسی نے ان سے پوچھا (کہ آپ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیوں کرتے ہیں)، تو انہوں نے جواب دیا: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا ہے؛ لہذا (جب تک میں زندہ رہوں) میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

(۵) قربانی کا فریضہ انجام دینے میں جلدی کریں؛ کیونکہ پہلے دن قربانی کرنے کا ثواب دوسرے دن قربانی کرنے سے زیادہ ہے اور دوسرے دن قربانی کرنے کا ثواب تیسرے دن قربانی کرنے سے زیادہ ہے۔

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى فلما قضى خطبته نزل عن منبره فأتي بكبش فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده وقال: بسم الله والله أكبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتي (سنن الترمذي، الرقم: ۱۵۲۱)[٤]

حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں عید الاضحی کے موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ میں حاضر تھا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو گئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے (یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم اس اونچی جگہ سے نیچے آئے، جس پر آپ کھڑے تھے)، پھر ایک دنبہ (قربانی کے لیے) آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو اپنے دست مبارک سے بسم الله والله اکبر کہہ کر ذبح کیا اور فرمایا: یہ (قربانی) میری طرف سے ہے اور میری امّت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جو قربانی نہیں کر سکیں (یعنی میں اس قربانی کا ثواب میری امّت کے ان لوگوں کے لیے بھیجتا ہوں، جو قربانی نہیں کر سکیں)۔

(٦) عید الاضحی کے دن سنت یہ ہے کہ انسان صبح سے کچھ نہ کھائے؛ یہاں تک کہ وہ عید الاضحی کی نماز سے واپس آجائے۔

عن ابن بريدة عن أبيه رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان لا يخرج يوم الفطر حتى يأكل وكان لا يأكل يوم النحر حتى يرجع (سنن ابن ماجة، الرقم: ۱۷۵٦، سنن الترمذي، الرقم: ۵٤۲)[۵]

حضرت بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم عید الفطر کے دن (عید کی نماز کے لیے گھر سے) نہیں نکلتے تھے؛ یہاں تک کہ وہ کچھ کھا لیتے تھے اور آپ عید الاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے؛ یہاں تک کہ آپ (عید کی نماز سے) واپس آتے تھے۔

(۷) عید الاضحی کی نماز سے واپس آنے کے بعد سب سے پہلی چیز جو آپ کو کھانا چاہیئے، وہ قربانی کا گوشت ہونا چاہیئے (کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب عید کی نماز سے واپس آتے، تو سب سے پہلی چیز جو آپ تناول فرماتے تھے، وہ قربانی کا گوشت ہوتا تھا)۔

حدثني عبد الله بن بريدة عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل ولا يأكل يوم الأضحى حتى يرجع فيأكل من أضحيته (مسند أحمد[٦]، الرقم: ۲۲۹۸٤، وفي رواية السنن الكبرى للبيهقي، الرقم: ٦۱٦۱: وكان إذا رجع أكل من كبد أضحيته)[۷]

حضرت بریدہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم عید الفطر کے دن عید کی نماز کے لیے نہیں نکلتے تھے؛ یہاں تک کہ وہ کچھ کھا لیتے تھے اور وہ عید الاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے؛ یہاں تک کہ وہ (عید کی نماز سے) واپس آجاتے تھے، پھر (سب سے پہلی) چیز جو آپ صلی الله علیہ وسلم تناول فرماتے تھے، وہ قربانی کے جانور کا گوشت ہوتا تھا۔

بیہقی کی روایت سے ثابت ہے کہ قربانی کے جانور میں کلیجی سب سے پہلی چیز تھی، جو آپ صلی الله علیہ وسلم عید الاضحی کے دن تناول فرماتے تھے۔

(۸) انسان کے لیے دسویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

عن نبيشة الهذلي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر الله (صحيح مسلم، الرقم: ۱۱٤۱، مسند أحمد، الرقم: ۲٠۷۲۲)[۸]

حضرت نبیشہ ہذلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایام تشریق کھانے، پینے اور الله کا ذکر کرنے کے ایام ہیں۔

(۹) اپنی مالی وسعت کے اعتبار سے قربانی کے لئے بہترین جانور خریدنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ جانور جتنا عمدہ ہو، اس حساب سے انسان کو آخرت میں ثواب ملےگا۔

عن عائشة رضي الله عنها وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين أقرنين أملحين موجوءين فذبح أحدهما عن أمته لمن شهد لله بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وذبح الآخر عن محمد وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم (سنن ابن ماجة، الرقم: ۳۱۲۲)[۹]

حضرت عائشہ رضی الله عنہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب قربانی کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے دو بڑے، سینگوں والے، سیاہ وسفید اور خصی دنبے خرید لئے اور ان میں سے ایک کو آپ نے اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرمایا، جو توحید کی گواہی دیتے ہوں اور اس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم الله کا پیغام (دین کا پیغام) پہنچا چکے ہیں اور دوسرا (جانور آپ نے) اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے ذبح فرمایا (یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے جانور کی قربانی کا ثواب اپنی امت کے لیے بھیجا تھا اور دوسرے جانور کی قربانی کا ثواب اپنی آل کے لیے بھیجا تھا)۔

(۱۰) قربانی کے جانور کو موٹا کرنا مستحب ہے۔

قال يحيى بن سعيد: سمعت أبا أمامة بن سهل قال :كنا نسمن الأضحية بالمدينة وكان المسلمون يسمنون (صحيح البخاري، الرقم: ۵۵۵۳)

حضرت ابو امامہ بن سھل رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے اور دوسرے مسلمان (یعنی صحابۂ کرام رضی الله عنہم) اپنے قربانی کے جانوروں کو بھی موٹا کرتے تھے۔

(۱۱) اگر کوئی شخص اپنی قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کر سکتا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ خود ذبح کرے اور اگر وہ خود ذبح کرنے پر قادر نہ ہو، تو کم از کم وہ اس جگہ میں حاضر رہے، جہاں اس کا جانور ذبح کیا جائے؛ لیکن حاضر ہونے سے پہلے اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ اس جگہ میں مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ کا انتظام ہو (یعنی اجنبی مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو)۔

عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يا فاطمة قومي فاشهدي أضحيتك فإن لك بأول قطرة تقطر من دمها مغفرة لكل ذنب أما إنه يجاء بلحمها ودمها توضع في ميزانك سبعين ضعفا قال أبو سعيد: يا رسول الله هذا لآل محمد خاصة فإنهم أهل لما خصوا به من الخير أو للمسلمين عامة قال: لآل محمد خاصة وللمسلمين عامة (رواه أبو القاسم الأصبهاني كما في الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٦٦۲)[۱۰]

حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا: اے فاطمہ! (جس جگہ میں آپ کی قربانی کا جانور ذبح کیا جائے، آپ وہاں) کھڑی ہو اور اپنی قربانی کا جانور ذبح ہوتے ہوئے دیکھو، اس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ بے شک اس کا گوشت اور خون تمہارے ترازو میں ستّر گنا کر کے رکھا جائےگا۔ حضرت ابو سعید رضی الله عنہ نے عرض کیا: اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! کیا یہ فضیلت اور ثواب آپ کے خاندان کے ساتھ خاص ہے؛ کیونکہ وہ (آپ کا خاندان) ہر طرح کے خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے زیادہ حق دار ہیں یا یہ فضیلت اور ثواب تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (فضیلت) آل محمد کے لیے خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی)۔

(۱۲) عورت بھی اپنا جانور کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کر سکتی ہے؛ بشرطیکہ وہ غیر محرموں کے سامنے نہ آئے۔

(۱۳) کسی بھی جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کریں۔

(١٤) ذبح کے وقت تیز چھری استعمال کریں اور جلدی ذبح کریں؛ کیونکہ کند چھری استعمال کرنے سے یا آہستہ آہستہ ذبح کرنے سے جانور کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحد الشفار وأن توارى عن البهائم وقال: إذا ذبح أحدكم فليجهز (سنن ابن ماجة، الرقم: ۳۱۷۲)[۱۱]

حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے) چھریاں تیز کر لی جائیں اور (آپ نے یہ حکم بھی دیا کہ) اس (جانور) کو دوسرے جانوروں سے چھپا کر ذبح کیا جائے اور آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جانور کو ذبح کرے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ جلدی ذبح کرے (تاکہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو)۔

(۱۵) جانور کے سامنے چھری کو تیز نہ کریں۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما أن رجلا أضجع شاة وهو يحد شفرته فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أتريد أن تميتها موتات هلا أحددت شفرتك قبل أن تضجعها (المستدرك على الصحيحين للحاكم، الرقم: ۷۵٦۳)[۱۲]

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے اپنی قربانی کی بکری کو (زمین پر) لٹایا اور وہ اپنی چھری کو اس کے سامنے تیز کر رہا تھا، تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا تم اس جانور کو کئی بار مار ڈالنا چاہتے ہو؟ (پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ) تم نے جانور کو زمین پر لٹانے سے پہلے (ذبح کے لیے) اپنی چھری کو کیوں تیز نہیں کی؟

(١٦) جب آپ جانور کو ذبح کرنے کے لیے لے جائیں، تو نرمی سے لے جائیں، اس کو گھسیٹ کر نہ لے جائیں۔

عن ابن سيرين رحمه الله قال: رأى عمر بن الخطاب رجلا يسحب شاة برجلها ليذبحها فقال له: ويلك قدها إلى الموت قودا جميلا (مصنف عبد الرزاق، الرقم: ۸٦٠۵)[۱۳]

حضرت ابن سیرین رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ نے ایک شخص کو دیکھا، جو اپنی بکری کو ذبح کرنے کے لیے لے جا رہا تھا (اور لے جاتے ہوئے) وہ اس کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا، تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس سے کہا: تیرے لیے خرابی ہو، اس (جانور ) کو اس کی موت (کی جگہ) کی طرف اچھی طرح سے لے جاؤ۔

(۱۷) ذبح کے وقت جانور کو قبلہ رُخ کر کے بائیں پہلو پر لٹائیں۔

عن أنس رضي الله عنه قال: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما (صحيح البخاري، الرقم: ۵۵٦۵)

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید، سینگوں والے دنبے کی قربانی کی۔ ان کو اپنے دست مبارک سے بسم الله الله اکبر کہہ کر ذبح کیا اور (ذبح کے وقت) اپنا پیر ان کے پہلوؤں پر رکھا (یعنی دونوں جانور اپنے بائیں پہلوؤں پر لٹائے گیے؛ تاکہ وہ قبلہ رخ ہوں)۔

(۱۸) ذبح کے بعد جب تک جانور کی روح پورے طور پر نہ نکل جائے، اس کی کھال نہ اتاریں۔

(۱۹) جانور کو ”بسم الله الله اکبر“ کہہ کر ذبح کریں۔

(۲۰) اگر کوئی شخص ذبح کے وقت جان بوجھ کر ”بسم الله“ پڑھنے کو چھوڑ دے، تو ذبح کیا ہوا جانور مردار ہوگا اور اس کا کھانا حرام ہوگا۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَاْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ

اور جس چیز (جانور) پر الله تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس میں سے مت کھاؤ۔

(۲۱) قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے:‏

إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ‎ ‎إنَّ ‏صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللهُمَّ مِنكَ وَ لَكَ

میں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سیدھی ملّت پر قائم رہتے ہوئے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا، جس نے آسمانوں اور ‏زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب الله تعالیٰ ہی کے ‏لیے ہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے الله! یہ قربانی آپ ہی کی طرف سے ہے اور آپ ہی کے لیے ہے۔

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: ذبح النبى صلى الله عليه وسلم يوم الذبح كبشين أقرنين أملحين ‏موجئين فلما وجههما قال: إنى وجهت وجهى للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من ‏المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين اللهم ‏منك ولك عن محمد وأمته باسم الله والله أكبر ثم ذبح (سنن أبي داود، الرقم: ۲۷۹۷)‏

حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قربانی کے دن دو سینگ دار، سیاہ ‏وسفید رنگ اور خصّی دنبوں کو ذبح کیا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان (دونوں) کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل دعا پڑھی۔‏

إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ‎ ‎إنَّ ‏صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللهُمَّ مِنكَ وَ ‏لَكَ

‏(۲۲) قربانی کے جانور کا گوشت خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا مستحب ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ قربانی کرنے والا قربانی ‏کا پورا گوشت اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے رکھ لے؛ البتہ افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک حصہ اپنے ‏گھر والوں کے لیے رکھا جائے، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا جائے اور تیسرا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا ‏جائے۔

عن عابس بن ربيعة رحمه الله قال: قلت لأم المؤمنين: أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن لحوم الأضاحي قالت: لا ولكن ‏قل من كان يضحي من الناس فأحب أن يطعم من لم يكن يضحي ولقد كنا نرفع الكراع فنأكله بعد عشرة أيام (سنن ‏الترمذي، الرقم: ۱۵۱۱)‏

حضرت عابس بن ربیعہ رحمہ الله نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے سوال کیا: کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم کو قربانی کے ‏جانور کا گوشت کھانے سے منع کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے جواب دیا: نہیں (آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں قربانی کا گوشت کھانے سے منع نہیں کیا؛ بلکہ ہمیں اجازت دی ہے کہ جتنا ہم چاہیں اور جب تک ہم چاہیں، ہم قربانی کے گوشت سے کھا سکتے ہیں)؛ البتہ (آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں) قربانی کرنے والے لوگ کم ہوتے تھے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے چاہا کہ قربانی نہ کرنے والوں کو قربانی کے جانور کے گوشت سے کھلایا جائے (یعنی آپ چاہتے تھے کہ مال دار لوگ اپنے قربانی کے گوشت سے غریبوں کو کھلاویں) اور ہم لوگ جانور کے پائے اٹھا کر رکھتے تھے اور دس دن کے بعد ہم اس سے کھاتے تھے (یعنی ہم لوگ قربانی کے گوشت سے برابر کھاتے تھے؛ یہاں تک کہ اس کے پائے کو بھی رکھ کر دس دن کے بعد کھاتے تھے)۔

‏(۲۳) حدیث شریف میں آیا ہے کہ قربانی کے دنوں میں (مالی عبادتوں میں سے) سب سے افضل عمل خون بہانا ہے (قربانی کرنا)؛ لیکن نبی کریم صلی ‏الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ ان دنوں میں ایک ایسا عمل ہے، جس کا ثواب قربانی سے بھی زیادہ ہے اور وہ عمل ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنا ‏ہے؛ لہذا ہمیں فریضۂ قربانی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی کرنی چاہیئے۔‏

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم في يوم أضحى: ما عمل آدمي في هذا اليوم ‏أفضل من دم يهراق إلا أن يكون رحما مقطوعة توصل (المعجم الكبير للطبراني، الرقم: ۱٠۹٤۸)‏

‏ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن ‏ارشاد فرمایا کہ آج کے دن کوئی شخص خون بہانے کے عمل سے بہتر (یعنی قربانی کے عمل سے بہتر) کوئی عمل نہیں کر سکتا ہے الاّ یہ کہ کوئی شخص ‏اس رشتہ کو جوڑے، جس کو توڑ دیا گیا تھا۔


[۱]  عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال: قلنا: يا رسول الله ما هذه الأضاحي قال: سنة أبيكم إبراهيم قال: قلنا: فما لنا منها قال: بكل شعرة حسنة قلنا: يا رسول الله فالصوف قال: فكل شعرة من الصوف حسنة ( المستدرك على الصحيحين للحاكم، الرقم: ۳٤٦۷، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه) وتعقبه الذهبي، فقال: عائذ الله (أحد رواة هذا الحديث) قال أبو حاتم منكر الحديث. قلت: يعمل بمثل هذا الحديث الضعيف في فضائل الاعمال لاسيما إذا كان له شواهد.

منها حديث عبد الله بن عمرو عند الطبراني في المعجم الكبير قال: أفاض جبريل بإبراهيم عليهما السلام إلى منى فصلى به الظهر والعصر والمغرب والعشاء والصبح ثم غدا من منى إلى عرفات فصلى به الصلاتين ثم وقف حتى غابت الشمس ثم أتى به المزدلفة فنزل بها فبات بها ثم قال: فصلى كأعجل ما يصلي أحد من المسلمين ثم دفع به إلى منى فرمى وذبح وحلق ثم أوحى الله عز وجل إلى محمد صلى الله عليه وسلم أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا وما كان من المشركين (قال الهيثمي: رواه الطبراني في الكبير بأسانيد ورجال بعضها رجال الصحيح وفي بعض طرقها: أتى رجل عبد الله بن عمرو فقال: إني مضعف من الحمولة مضعف من أهل أفترى لي أن أتعجل فقال له عبد الله بن عمرو: قدم إبراهيم صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت وطاف بين الصفا والمروة ثم راح فصلى الظهر بمنى فذكر نحوه، مجمع الزوائد، الرقم: ۵۵٤٠)

ومنها حديث ابن مربع الأنصاري عند الترمذي، فعن يزيد بن شيبان قال: أتانا ابن مربع الأنصاري ونحن وقوف بالموقف مكانا يباعده عمرو فقال: إني رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم يقول: كونوا على مشاعركم فإنكم على إرث من إرث إبراهيم، وفي الباب عن علي وعائشة وجبير بن مطعم والشريد بن سويد الثقفي، حديث ابن مربع الأنصاري حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث ابن عيينة عن عمرو بن دينار وابن مربع اسمه يزيد بن مربع الأنصاري وإنما يعرف له هذا الحديث الواحد (سنن الترمذي، الرقم: ۸۸۳)

ومنها أثر ابن المسيب عند عبد الرزاق قال: لا ينحر إلا في منحر إبراهيم (مصنف عبد الرزاق، الرقم: ۸٤۸٦)

[۲] قال الإمام الترمذي – رحمه الله -: هذا حديث حسن غريب

[۳] قال الإمام الترمذي – رحمه الله -: هذا حديث غريب

[٤] قال الإمام الترمذي – رحمه الله -:  هذا حديث غريب من هذا الوجه

[۵] عن عبد الله بن بريدة عن أبيه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يطعم يوم الأضحى حتى يصلي (سنن الترمذي، الرقم:  ۵٤۲ وقال: حديث بريدة بن حصيب الأسلمي حديث غريب)

[٦] ذكر الذهبي هذه الرواية في المهذب ۳/۱۲۱۹بألفاظ متقاربة فقال: (رواه) الطيالسي ومسلم بن إبراهيم قالا نا ثواب بن عتبة نا عبد الله بن بريدة عن أبيه: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يأكل يوم النحر حتى يذبح، وقال أبو عاصم عن ثواب: حتى يرجع وقال مسلم عنه: حتى يرجع فيأكل من أضحيته قلت: ثواب قواه ابن معين ولينه أبو زرعة.

[۷] أخبرنا ابن عبدان أنا أحمد بن عبيد نا سعيد بن عثمان الأهوازي ثنا علي بن بحر القطان نا الوليد بن مسلم نا ابن مهدي عن عقبة بن الأصم عن ابن بريدة عن أبيه: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم الفطر لم يخرج حتى يأكل شيئا وإذا كان الأضحى لم يأكل حتى يرجع وكان إذا رجع أكل من كبد أضحيته، قلت: لم يتابع عليه وظني أن عقبة هو ابن عتبة المذكور قبله غلط في اسمه (المهذب للذهبي ۳/۱۲۱۹)

[۸] عن نبيشة الهذلي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيام التشريق أيام أكل وشرب، حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير حدثنا إسماعيل يعني ابن علية عن خالد الحذاء حدثني أبو قلابة عن أبي المليح عن نبيشة، قال خالد: فلقيت أبا المليح فسألته فحدثني به فذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث هشيم وزاد فيه وذكر لله (صحيح مسلم، الرقم: ۱۱٤۱)

[۹] قال العلامة البوصيري – رحمه الله -: هذا إسناد حسن (مصباح الزجاجة ۳/۲۲۲)

[۱۰] وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها فإن لك بأول قطرة تقطر من دمها أن يغفر لك ما سلف من ذنوبك قالت يا رسول الله ألنا خاصة أهل البيت أو لنا وللمسلمين قال بل لنا وللمسلمين رواه البزار وأبو الشيخ ابن حبان في كتاب الضحايا وغيره وفي إسناده عطية بن قيس وثق وفيه كلام ورواه أبو القاسم الأصبهاني عن علي ولفظه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا فاطمة قومي فاشهدي أضحيتك فإن لك بأول قطرة تقطر من دمها مغفرة لكل ذنب أما إنه يجاء بلحمها ودمها توضع في ميزانك سبعين ضعفا قال أبو سعيد يا رسول الله هذا لآل محمد خاصة فإنهم أهل لما خصوا به من الخير أو للمسلمين عامة قال لآل محمد خاصة وللمسلمين عامة وقد حسن بعض مشايخنا حديث علي هذا والله أعلم (الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٦٦۳)

[۱۱] قال العلامة البوصيري – رحمه الله -: إن إسنادي حديث ابن عمر ضعيف لأن مدار الإسنادين على عبد الله بن لهيعة وهو ضعيف وله شاهد من حديث شداد بن أوس رواه مسلم في صحيحه وأصحاب السنن الأربعة (مصباح الزجاجة ۳/۲۳۳)

[۱۲] وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه، وقال الذهبي: على شرط البخاري

[۱۳] رواته كلهم ثقات، وقد ذكره المنذري في الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٦۷٤بلفظة “عن”، إشارة إلى كونه صحيحا أو حسنا أو ما قاربهما عنده كما بين أصله في مقدمة كتابه ۱/۵٠

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …