(۱) ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں خوب عبادت کریں۔ ان دس دنوں میں عبادت کرنے کی بہت زیادہ فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی نیک عمل سال کے دوسرے دنوں میں کیا جائے، وہ اس نیک عمل سے افضل نہیں ہے، جو ان دس دنوں میں کیا جائے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جہاد بھی نہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد بھی نہیں؛ مگر یہ کہ کوئی شخص (جہاد میں) اپنی جان اور اپنا مال خطرے میں ڈال دے اور کسی چیز کے ساتھ نہ لوٹے (یعنی ان دس دنوں میں جہاد کا ثواب سال کے دوسرے دنوں میں جہاد سے زیادہ ہے الّا یہ کہ کوئی دوسرے وقت جہاد کرے اور شہید ہو جائے)۔ [۱]
(۲) ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنے کی کوشش کریں۔ ان دس دنوں میں (دسویں ذی الحجہ کے علاوہ) جو آدمی روزہ رکھے، تو اس کو ہر روزہ کے بدلہ پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب ملےگا۔ [۲]
(۳) ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں؛ کیوں کہ ان راتوں میں عبادت کا ثواب شب قدر میں عبادت کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سال کے کسی بھی دن میں عبادت کرنا الله تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں، جتنا ذی الحجہ کے دس دنوں میں عبادت کرنا محبوب ہے۔ ان دس دنوں میں (دسویں ذی الحجہ کے علاوہ) ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان دس دنوں میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے ثواب کے برابر ہے۔ [۳]
ایک دوسری حدیث شریف میں حضرت حفصہ رضی الله عنہا سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم چار اعمال نہیں چھوڑتے تھے: (۱) عاشورہ کا روزہ (۲) ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کا روزہ (دسویں ذی الحجہ کے علاوہ) (۳) ہر ماہ تین دنوں کا روزہ (٤) فجر سے پہلے دو رکعت سنّت کا پڑھنا۔ [۴]
(۴) ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کثرت سے مندرجہ ذیل کلمات پڑھیں:
سُبْحَانَ اللهِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ اَللهُ أَكْبَرْ
الله کی ذات پاک ہے۔ تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں۔ الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ الله تعالیٰ سب سے بڑے ہیں۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ہے کوئی دن (سال کے دنوں میں)، جس میں الله تعالیٰ کی عبادت زیادہ عظیم ہو اور الله تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو، ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں سے؛ لہذا (ان دنوں میں) تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر کی کثرت کرو۔ [۵]
(۵) جن لوگوں کو قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ ذی الحجہ کے شروع سے لے کر قربانی کے جانور کے ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن کو نہ کاٹیں۔ [۶]
حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو جب ذی الحجہ کا پہلا چاند نظر آئے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے؛ یہاں تک کہ وہ اپنی قربانی کا جانور ذبح کرے۔ [۷]
(۶) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص سال کی پانچ راتوں میں عبادت کرے، اس کے لیے جنّت واجب ہو جائےگی۔
وہ پانچ راتیں یہ ہیں:
(۱) لیلۃ الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ کی رات)
(۲) عرفہ کی رات (نویں ذی الحجہ کی رات)
(۳) لیلۃ النحر (دسویں ذی الحجہ کی رات)
(٤) عید الفطر کی رات
(۷) شب براءت (پندرھویں شعبان کی رات)۔
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سال کی پانچ راتوں کو عبادت سے زندہ کرے (یعنی ان راتوں کو عبادت میں گزارے)، اس کے لیے جنّت واجب ہو جائےگی۔ (وہ پانچ راتیں یہ ہیں:) ترویہ کی رات (آٹھویں ذی الحجہ کی رات)، عرفہ کی رات (نویں ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ النحر (دسویں ذی الحجہ کی رات)، عید الفطر کی رات اور پندرھویں شعبان کی رات۔ [۸]
(۸) جو شخص حالت احرام میں نہ ہو، اس کے لیے عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) روزہ رکھنا مستحب ہے۔ عرفہ کے دن روزہ رکھنے والے کو ایک سال روزہ رکھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے دو سال کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ [۹]
حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: اے الله کے رسول! عاشورہ کے دن روزہ رکھنے والے کو کیا ثواب ملےگا؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب پورے سال روزہ رکھنے کے ثواب کے برابر ہے، پھر اس صحابی نے سوال کیا: عرفہ کے دن روزہ رکھنے والے کو کیا ثواب ملےگا؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا؛ عرفہ کا روزہ موجودہ سال اور گذشتہ سال کے (صغیرہ) گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ [۱۰]
حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، (تو میں نے دیکھا کہ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرفہ کے دن (حج کے دوران) روزہ نہیں رکھا۔ میں نے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی (حج میں) عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا۔ اسی طرح میں نے حضرت عمر رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا، انہوں نے بھی (حج میں) عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا، پھر میں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی عرفہ کے دن (حج میں) روزہ نہیں رکھا۔ [۱۱]
(۹) عرفہ کے دن کثرت سے مندرجہ ذیل دعا پڑھیں:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان ہی کے لیے (تمام جہاں کی) بادشاہت ہے اور ان ہی کے لیے (تمام) تعریف ہے۔ ان ہی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [۱۲]
(۱۰) عرفہ کے دن خوب دعا کریں۔ یہ دن مبارک دن ہے، یہ دن ذی الحجہ کے دوسرے دس دنوں سے بھی افضل ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ الله تعالیٰ عرفہ کے دن دوسرے دنوں کے مقابلہ سب سے زیادہ لوگ جہنم سے آزاد کرتے ہیں۔
حضرت علی رضی الله عنہ عرفہ کے دن مندرجہ ذیل دعا مانگتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس دعا کو پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے:
اَللّٰهُمَّ أَعْتِقْ رَقَبَتِيْ مِنَ النَّارِ وَأَوْسِعْ لِيْ مِنَ الرِّزْقِ الْحَلالِ وَاصْرِفْ عَنِّيْ فَسَقَةَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ
اے الله! میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد فرما دے اور حلال روزی کو میرے لیے فراخ اور کشادہ فرما دے اور برے جن اور برے انسان کو مجھ سے دور فرما دے۔ [۱۳]
(۱۱) حاجی کو چاہیئے کہ وہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ میں وقوف کے دوران سو بار مندرجہ ذیل کلمات پڑھے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان ہی کے لیے (تمام جہاں کی) بادشاہت ہے اور ان ہی کے لیے (تمام) تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
پھر سو بار سورۂ اخلاص پڑھے۔ اس کے بعد سو بار مندرجہ ذیل درود پڑھے:
اَللَٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَآلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَعَليْنَا مَعَهُمْ
اے الله! درود (اپنی خاص رحمت) بھیج محمد صلی الله علیہ وسلم پر، جس طرح تو نے درود (اپنی خاص رحمت) بھیجا حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد پر۔ بے شک آپ تعریف کے قابل اور بزرگ وبرتر ہے اور ان کے ساتھ ہم پر بھی (رحمت) نازل فرما۔
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی مسلمان (حاجی) عرفہ کے دن زوال کے بعد میدان عرفات میں قبلہ رخ ہو کر وقوف کرے اور مذکورہ بالا اذکار پڑھے، تو الله تعالیٰ فرشتوں کو اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
”اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کا کیا بدلہ ہے، جس نے میری تسبیح کی اور میری وحدانیت کی گواہی دی اور میری بڑائی اور عظمت بیان کی، مجھے پہچانا، میری تعریف کی اور میرے نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا؟ اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو کہ میں نے اس کو بخش دیا اور اس کو شفاعت کا شرف عطا کیا۔ اگر میرا یہ بندہ اس تمام اہل موقف (اہل عرفات) کے لیے سفارش کرے، تو میں اس کی سفارش قبول کروں گا۔“ [۱۴]
(۱۲) مرد اور عورت نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق پڑھیں۔ مرد آواز سے پڑھے اور عورت آہستہ پڑھے۔ [۱۵]
تکبیر تشریق یہ ہے:
اَللهُ أَكْبَرْ اَللهُ أَكْبَرْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ اَللهُ أَكْبَرْ اَللهُ أَكْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدْ
اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں اور اللہ ہی کے لیے تمام تعریف ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن (تیرہویں ذی الحجہ) کی عصر تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔ [۱۶]
(۱۳) اگر آپ پر قربانی واجب ہو، تو قربانی ضرور کریں۔ [۱۷]
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں الله تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کا جانور ذبح کرنے) سے زیادہ کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئےگا (تاکہ میزانِ عمل پر وزن کیا جائے)۔ قربانی الله تعالیٰ کے یہاں پہونچتی ہے (یعنی مقبول ہوتی ہے) اس سے پہلے کہ اس کا خون زمین پر گر جائے؛ لہذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔“ [۱۸]
[۱] صحيح البخاري، الرقم: ۹٦۹
[۲] ويستحب صوم تسعة أيام من أول ذي الحجة كذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية ۱/۲٠۱)
[۳] سنن الترمذي، الرقم: ۷۵۸، وقال: هذا حديث غريب
[٤] سنن النسائي، الرقم: ۲٤۱٦، صحيح ابن حبان، الرقم: ٦٤۲۲
[۵] المعجم الكبير للطبراني، الرقم: ۱۱۱۱٦، وقال العلامة الهيثمي رحمه الله في مجمع الزوائد، الرقم: ۵۹۳۲: قلت: هو في الصحيح باختصار التسبيح وغيره رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
[٦] قال في شرح المنية وفي المضمرات عن ابن المبارك في تقليم الأظفار وحلق الرأس في العشر أي عشر ذي الحجة قال لا تؤخر السنة وقد ورد ذلك ولا يجب التأخير اهـ ومما ورد في صحيح مسلم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع فظهر قوله ولا يجب التأخير إلا أن نفي الوجوب لا ينافي الاستحباب فيكون مستحبا إلا إن استلزم الزيادة على وقت إباحة التأخير ونهايته ما دون الأربعين فلا يباح فوقها (رد المحتار ۲\۱۸۱)
[۷] صحيح مسلم، الرقم: ۱۹۷۷
[۸] تاريخ ابن عساكر ٤۳/۹۳، وقد ذكره المنذري في الترغيب والترهيب، الرقم: ۱٦۵٦، بلفظة “عن”، إشارة إلى كونه صحيحا أو حسنا أو ما قاربهما عنده كما بين أصله في مقدمة كتابه ۱/۵٠
[۹] وأما صوم يوم عرفة ففي حق غير الحاج مستحب لكثرة الأحاديث الواردة بالندب إلى صومه ولأن له فضيلة على غيره من الأيام (بدائع الصنائع ۲/۷۹)
[۱۰] صحيح ابن حبان، الرقم: ۳٦۳۱
[۱۱] سنن الترمذي، الرقم: ۷۵٠، وقال: هذا حديث حسن
[۱۲] مسند أحمد، الرقم: ۷٠۸٠، و قال العلامة الهيثمي رحمه الله في مجمع الزوائد، الرقم: ۵۵۵٠، رواه أحمد ورجاله موثقون
[۱۳] ومنها كثرة الدعاء بالمغفرة والعتق فإنه يرجى إجابة الدعاء فيه روى ابن أبي الدنيا بإسناده عن علي قال ليس في الأرض يوم إلا لله فيه عتقاء من النار وليس يوم أكثر فيه عتقا للرقاب من يوم عرفة فأكثر فيه أن تقول: اللهم أعتق رقبتي من النار وأوسع لي من الرزق الحلال واصرف عني فسقة الجن والإنس فإنه عامة دعائي اليوم (لطائف المعارف صـ ۲۸٤)
[۱٤] شعب الإيمان، الرقم: ۳۷۸٠، وقال: هذا متن غريب وليس في إسناده من ينسب إلى الوضع والله أعلم
[۱۵] (وقالا بوجوبه فور كل فرض مطلقا) ولو منفردا أو مسافرا أو امرأة لأنه تبع للمكتوبة (إلى) عصر اليوم الخامس (آخر أيام التشريق وعليه الاعتماد) والعمل والفتوى في عامة الأمصار وكافة الأعصار ولا بأس به عقب العيد لأن المسلمين توارثوه فوجب اتباعهم وعليه البلخيون ولا يمنع العامة من التكبير في الأسواق في الأيام العشر وبه نأخذ بحر ومجتبى وغيره (الدر المختار ۲/۱۸٠)
ابتداء وانتهاء التكبير وتكبير التشريق أوله بعد فجر يوم عرفة وآخره بعد عصر يوم النحر (تحفة الملوك صــ ۹۵)
والمرأة تخافت بالتكبير لأن صوتها عورة (تبيين الحقائق ۱/۲۲۷)
[۱٦] كتاب الآثار للإمام محمد، الرقم: ۲٠۸
[۱۷] والأضحية واجبة في قول أبي حنيفة وأصحابه على الموسر المقيم في المصر وعلى غيره ليست بواجبة (النتف ۱/۲۳۹)
[۱۸] سنن الترمذي، الرقم: ۱٤۹۳، وقال: حديث حسن غريب لا نعرفه من حديث هشام بن عروة إلا من هذا الوجه