ایک درود پر دس نیکیاں

‎‎

عن أنس بن مالك  رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم من صلى علي بلغتني صلاته وصليت عليه وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات (المعجم الأوسط، الرقم: ۱٦٤۲، وسنده لا بأس به كما في الترغيب والترهيب للمنذري، الرقم: ۲۵۷۲)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے، اس کا درود میرے پاس پہونچتا ہے (فرشتوں کے ذریعہ سے) اور میں (بھی) اس  کے درود کا جواب دیتا ہوں اور اس کے علاوہ اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔“

درود شریف پڑھنے والوں کے لئے خوشخبری

محمد بن مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:

میں بغداد گیا؛ تاکہ قاری ابو بکربن مجاہد رحمہ اللہ کے پاس کچھ پڑھوں۔ ہم لوگوں کی ایک جماعت ان کی خدمت میں حاضر تھی اور قراءت ہو رہی تھی اتنے میں ایک بڑے میاں ان کی مجلس میں آئے جن کے سر پر بہت ہی پرانا عمامہ تھا، ایک پرانا کرتا تھا، ایک پرانی سی چادر تھی۔ ابوبکر ان کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے ان کے گھروالوں کی اہل وعیال کی خیرریت پوچھی۔

ان بڑے میاں نے کہا رات میرے ایک لڑکا پیدا ہوا،گھر والوں نے مجھ سے گھی اور شہد کی فرمائش کی۔ شیخ ابو بکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ان کا حال سن کر بہت ہی رنجیدہ ہوا اور اسی رنج وغم کی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔

حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اتنا رنج کیوں ہے، علی بن عیسٰی وزیر کے پاس جا اور اس کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ علامت بتانا کہ تو ہر جمعہ کی رات کو اس وقت تک نہیں سوتا جب تک کہ مجھ پر ایک ہزار مرتبہ درود نہ پڑھ لے اور اس جمعہ کی رات میں تو نے سات سو مرتبہ پڑھا تھا کہ تیرے پاس بادشاہ کا آدمی بلانے آگیا تو وہاں چلا گیا اور وہاں سے آنے کے بعد تو نے اس مقدار کو پورا کیا۔ یہ علامت بتانے کے بعد اس سے کہنا کہ اس نو مولود کے والد کو سو دینار (اشرفیاں) دیدے؛ تاکہ یہ اپنی ضروریات میں خرچ کر لے۔

قاری ابو بکر اٹھے اور ان بڑے میاں نو مولود کے والد کو ساتھ لیا اور دونوں وزیر کے پاس پہنچے۔ قاری ابو بکر نے وزیر سے کہا اِن بڑے میاں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وزیر کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے قصّہ پوچھا۔

 شیخ ابو بکر نے سارا قصّہ سنایا جس سے وزیر کو بہت ہی خوشی ہوئی اور اپنے غلام کو حکم کیا کہ ایک توڑا نکال کر لائے (توڑا ہمیانی تھیلی جس میں دس ہزار کی مقدار ہوتی ہے) اس میں سے سو دینار اس نومولود کے والد کو دیئے، اس کے بعد سو اور نکالے؛ تاکہ شیخ ابو بکر کو دے، شیخ نے ان کے لینے سے انکار کیا۔

وزیر نے اصرار کیا کہ ان کو لے لیجئے۔ اس لئے کہ یہ اس بشارت کی وجہ سے ہے جو آپ نے مجھے اس واقعہ کے متعلق سنائی، اس لئے کہ یہ واقعہ یعنی ایک ہزار درود والا ایک راز ہے جس کو میرے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر سو دینار اور نکالے اور یہ کہا کہ یہ اس خوشخبر ی کے بدلہ میں ہیں کہ تم نے مجھے اس کی بشارت سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے درود شریف پڑھنے کی اطلاع ہے۔ اور پھر سو اشرفیاں اور نکالیں اور یہ کہا کہ یہ اس مشقت کے بدلہ میں ہے جو تم کو یہاں آنے میں ہوئی۔

اسی طرح سو سو اشرفیاں نکالتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک ہزار اشرفیاں نکالیں؛ مگر انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ ہم اس مقدار یعنی سو دینا ر سے زائد نہیں لیں گے جن کا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا۔ (فضائل درود، ص۱۷۳)

دن پر رات کی فضیلت

نزہۃ المجالس میں ایک عجیب قصہ لکھا ہے کہ رات اور دن میں آپس میں مناظرہ ہوا کہ ہم میں سے کونسا افضل ہے۔

دن ‏نے اپنی فضیلت کے لئے کہا کہ میرے میں تین فرض نمازیں ہیں اور تیرے میں دو اور مجھ میں جمعہ کے دن ایک ‏ساعتِ اجابت ہے جس میں آدمی جو مانگے وہ ملتا ہے (یہ صحیح اور مشہور حدیث ہے) اور میرے اندر رمضان المبارک کے ‏روزہ رکھے جاتے ہیں، تو لوگوں کے لئے سونے اور غفلت کا ذریعہ ہے اور میرے ساتھ تیقظ اور چوکنّا پن ہے اور مجھ میں ‏حرکت ہے اور حرکت میں برکت ہے۔ اورمیرے میں آفتاب نکلتا ہے جو ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے۔

رات نے کہا کہ ‏اگر تو اپنے آفتاب پر فخر کرتا ہے تو میرے آفتاب الله والوں کےقلوب ہیں اہل تہجد اور الله کی حکمتوں میں غور کرنے ‏والوں کے قلوب ہیں، تو ان عاشقوں کے شراب تک کہاں پہنچ سکتا ہے جو خلوت کے وقت میں میرے ساتھ ہوتے ‏ہیں۔ تو معراج کی رات کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ تو الله جل شانہ کے پاک ارشاد کا کیا جواب دیگا جو اس نے اپنے پاک رسول ‏صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا ”وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَهَجَّدۡ بِه نَافِلَۃً لَّکَ“ کہ رات کو تہجد پڑھئے جو بطورِ نافلہ کے ہے آپ کے ‏لئے، الله نے مجھے تجھ سے پہلے پیدا کیا۔ میرے اندر لیلة القدر ہے جس میں مالک کی نامعلوم کیا کیا عطائیں ہوتی ہیں الله کا ‏پاک ارشاد ہے کہ وہ ہر رات کے آخری حصہ میں یوں ارشاد فرماتا ہے کوئی ہے مانگنے والا جس کو دوں۔ کوئی ہے توبہ کرنے ‏والا جس کی توبہ قبول کروں۔ کیا تجھے الله کے اس پاک ارشاد کی خبر نہیں ”یٰۤاَیُّها الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾‏‎قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾‏‎“ کہ کیا تجھے الله کے اس پاک ارشاد کی خبر نہیں کہ جس میں الله نے ارشاد فرمایا ”سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِهٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا“ پاک ہے وہ ذات جو رات کو لے گیا اپنے بندے کو مسجدِ ‏حرام سے مسجدِ اقصےٰ تک۔ (فضائل درود شریف، ص۱۹۲)

‎يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ‎

Check Also

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حصول ‏

”جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت ضروری ہو گئی“...