سورۃ العصر کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَالۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾‏اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙوَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴿۳﴾‏‎ ‎

قسم ہے زمانے کی ﴿۱﴾ بے شک انسان بڑے گھاٹے میں ہیں ﴿۲﴾ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیئے اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہیں ﴿۳﴾

تفسیر

وَالۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾

قسم ہے زمانے کی ﴿۱﴾ بے شک انسان بڑے گھاٹے میں ہیں ﴿۲﴾

یہ ایک بہت مختصر سورت ہے؛ لیکن اس سورت کا مضمون انسان کے لئے نہایت اہم ہے۔ اس کے مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں دو صحابہ ایسے تھے کہ جنہوں نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ جب بھی وہ ایک دوسرے سے ملیں گے، تو وہ اس سورت کا مضمون ایک دوسرے سے پڑھ کر یاد دلائیں گے۔

امام شافعی رحمہ اللہ اس سورت کی جامعیت واہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اس سورت کے علاوہ  قرآن شریف میں سے کوئی اور سورت نازل نہ ہوتی تو یہی سورت پوری امت کی ہدایت کے لئے کافی ہوتی۔

اگر ہم اس سورت کی ابتداء میں غور کریں جس میں زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے اور ان مضامین کو دیکھیں جو اس کے بعد بیان کیےگئے ہیں، تو ہمیں ان کے درمیان بہت ہی گہرا ربط نظر آئےگا۔ پہلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے پھر انسان کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ بڑے گھاٹے میں ہے۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے انسان پر واضح کر دیا کہ اگر وہ اپنے آپ کو گھاٹے اور نقصان سے بچانا چاہتے ہیں، تو اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ”وقت “ کی قدر کرے جو اصل میں اس کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنے وقت کی قدر کرے، تو وہ اپنی زندگی میں بے پناہ منافع وفوائد حاصل کر سکتا ہے اور اپنے سرمایہ سے خوب نفع اٹھا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنا وقت ضائع کرے، تو وہ اپنا سرمایہ کھو دےگا اور بہت خسارہ اٹھائےگا۔

مال ودولت میں سے انسان کے پاس مختلف سرمائے ہوتے ہیں؛ لیکن وقت اور دوسرے سرمایوں کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ دیگر سرمائے اگر ضائع ہو جائیں، تو ان کو واپس حاصل کرنا ممکن ہے؛ لیکن اگر وقت ضائع ہو جائے، تو اس کو دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ انسان جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہے خواہ موجودہ حال میں ہو یا مستقبل میں ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو وقت ہی کے اندر حاصل کرے اور وقت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے؛ بلکہ وہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے، لہذا انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے وقت کی قدردانی کرے۔

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾‏

قسم ہے زمانے کی ﴿۱﴾ بے شک انسان بڑے گھاٹے میں ہے ﴿۲﴾

حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر شخص جب صبح کو بیدار ہوتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو بیچتا ہے یعنی اگر وہ اپنا وقت نیک اعمال کرنے میں صرف کرے، تو وہ اپنے آپ کو نیک اعمال کے ذریعہ بیچےگا الله تعالیٰ سے ثواب اور جنّت خریدنے کے لئے اور اگر وہ اپنا وقت بُرے اعمال کرنے میں صرف کرے، تو وہ اپنے آپ کو بُرے اعمال کے ذریعہ بیچےگا عذاب اور جہنّم خریدنے کے لئے۔

چنانچہ یہ ہر انسان پر موقوف ہے کہ وہ سوچے اور فیصلہ کرے کہ وہ اپنے لئے کیا چاہتا ہے، کیا وہ اپنے لئے دنیا اور آخرت میں بھلائی چاہتا ہے یا وہ اپنے لئے دنیا اور آخرت میں ہلاکت وبربادی چاہتا ہے۔

وقت ایک بڑی دولت ہے؛ یہ دولت دوسری دولتوں کی طرح نہیں ہے، دوسری دولتیں جیسے سونا، چاندی اور روپئے پیسے وغیرہ تجوری میں محفوظ رکھنا ممکن ہے؛ جبکہ انسان وقت کی دولت کو اپنی تجوری میں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔

لہذا انسان کو سمجھنا چاہیئے کہ وقت کی حقیقت برف کے مانند ہے۔ برف گرمی میں ہر لمحہ پر پگھلتا ہے اور گھٹتا ہے، اسی طرح انسان کی زندگی کا وقت ہر لمحہ گھٹتا رہتا ہے۔

لہذا اس سورت کا پیغام یہ ہے کہ ہر انسان اپنے قیمتی وقت کی قدر کرے اور اس کو مفید اور سود مند کاموں میں صرف کرے۔

مرنے والا انسان بھی آرزو کرےگا کہ اس کو مزید وقت دیا جائے؛ تاکہ وہ کچھ اور اعمال کر سکے؛ لیکن اس کو ایک لمحہ بھی مزید نہیں دیا جائےگا؛ لہذا انسان جو کچھ کرنا چاہے، اس کو چاہیئے کہ اس زندگی کے محدود وقت کے اندر کر لے۔

غرضیہ کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ کی قدر کرے اور اپنا وقت ہرگز برباد نہ کرے۔

اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾‏اِلَّا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

بےشک انسان بڑے گھاٹے میں ہے ﴿۲﴾ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔

اس سورۃ میں الله تعالی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ خسارے میں ہیں یعنی انہوں نے اپنی زندگی کے سرمایہ (وقت) کو ضائع کر دیا؛ لہذا وہ ناکامی اور خسارہ میں ہیں۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے محدود وقت میں کیسے بھلائیاں حاصل کر سکتا ہے؟ الله تعالیٰ اس کا جواب دے رہے ہیں کہ اگر انسان چار کاموں میں اپنی زندگی کے وقت صرف کرے، تو وہ پورے طور پر اپنے قیمتی سرمایہ (وقت) سے فائدہ حاصل کر سکےگا اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں سے مستفیض ہوگا۔

وہ چار کام یہ ہیں: (۱) ایمان لانا (۲) نیک اعمال کرنا اور گناہوں سے بچنا (۳) ایک دوسرے کو اچھائی اور نیکی کی ترغیب دینا (٤) ایک دوسرے کو برائی سے باز رہنے کی نصیحت کرنا۔

اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾‏اِلَّا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

بےشک انسان بڑے گھاٹے میں ہے ﴿۲﴾ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔

پہلا کام:

پہلا کام یہ ہے کہ انسان ایمان لائے۔ ایمان لانے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پاس ایک زمین ہے۔ اس زمین میں وہ پھل، پھول، پھل دار درخت اور انواع واقسام کے نباتات اور سبزیاں اُگا سکتا ہے۔ پھر وہ اس زمین کے پیداوار اور حاصلات سے خوب منافع اور فوائد حاصل کر سکتا ہے؛ لیکن ان منافع کو حاصل کرنے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ زمین حاصل کرے، زمین کے بغیر نہ تو وہ کوئی درخت اُگا سکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی کھیتی کر سکتا ہے۔

اگر کوئی غیر مسلم اپنی زندگی میں کوئی اچھے اعمال کرے۔ جیسے صدقہ وخیرات کا کام کرے، غریبوں اور مسکینوں پر رحم کر کے ان کی مدد کرے، تو چوں کہ وہ ایمان نہیں رکھتا ہے؛ اس لئے اس کو آخرت میں ان سارے اچھے اعمال کا کوئی بدلہ نہیں ملےگا۔ ہاں، دنیا میں جتنا خیر وبھلائی کا کام وہ کرے ان سب کا اچھا بدلہ اس کو دنیا ہی میں دیا جائےگا۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایمان الله تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت ہر قسم کی ترقّی کی کنجی ہے؛ لہذا انسان کے لئے کامیابی حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلا کام ” ایمان لانا “ ہے اور اس کے بعد اس ایمان کے اوپر محنت کرنا ہے۔

جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ ”ایمان“ ہر کامیابی کی کنجی ہے اور الله تعالیٰ کی سب سے بڑی دولت ہے، تو ہم کو چاہیئے کہ ہم اپنے ایمان کی قدر کرے اور اس کی حفاظت کرے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ انسان ایک دن یا ایک رات میں اپنا ایمان کھو دےگا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان صبح گزارےگا مؤمن ہونے کی حالت میں اور شام کو کافر ہو جائےگا۔ اسی طرح شام کو گزارےگا مؤمن ہونے کی حالت میں اور صبح کو کافر ہو جائےگا اور وہ دنیا کی معمولی سی چیز کے بدلہ اپنا دین وایمان بیچےگا۔ (مسلم شریف)

بہت سے اعمال ایسے ہیں جو انسان کو اپنے ایمان سے محروم کر سکتے ہیں مثلاً: حرام کاری، گناہوں کا ارتکاب، بُرے لوگوں کی صحبت، شراب نوشی، سود خوری، جُوا بازی، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ پر حرام تصویریں وغیرہ دیکھنا۔ جب انسان ان برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہوگا، تو اس کا ایمان کمزور ہو جائےگا اور رفتہ رفتہ وہ دین سے بہت دور چلا جائےگا؛ یہاں تک کہ اس کو غیر مسلموں کے اطوار اور طریقے زیادہ پسند آنے لگیں گے۔ ایسے آدمی کے بارے میں بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کا مذہب اختیار کر لےگا اور اسلام سے نکل جائے گا۔ أعاذنا اللہ

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ ‏اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

بے شک انسان بڑے گھاٹے میں ہے ﴿۲﴾ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔

دوسرا کام:

ایمان کے بعد جس چیز میں انسان کو اپنا وقت صرف کرنا چاہیئے وہ ”عمل صالح“ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ”ایمان“ سب سے عظیم دولت ہے؛ لیکن ایمان کا پورا ثمرہ اسی وقت ظاہر ہوگا، جب اعمال صالحہ ایمان کے ساتھ جوڑ دیا جائے؛ کیونکہ انسان اپنی زندگی میں جو بھی نیک اعمال کرے، تو وہ نیک اعمال اس کو دین پر قائم رکھےگا اور اس کے ایمان کو مضبوط کرےگا۔

الله سبحانہ وتعالیٰ نے سورۂ مؤمنون کی ابتدائی آیتوں میں اہل جنّت کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

قد أفلح المؤمنون

بےشک ایمان والے کا میاب ہیں

پھر الله تعالیٰ نے ایمان والوں کے اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جن پر وہ اپنی زندگی میں پابند رہتے جیسے نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، لایعنی امور سے اجتناب، شرم گاہوں کی حفاظت اور ایفاء عہد وغیرہ۔

اہل ایمان کے اعمال صالحہ کا ذکر کرنے کے بعد الله تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ جو لوگ ان نیک کاموں کو انجام دیں گے، وہ جنّت الفردوس (جنّت میں سب سے اعلیٰ مقام) میں داخل ہوں گے۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھےگی، رمضان کا روزہ رکھےگی، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرےگی اور اپنے شوہر کی اطاعت کرےگی، تو قیامت کے روز اس سے کہا جائےگا کہ تم جنّت کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہو، داخل ہو جاؤ۔“ (مجمع الزوائد)

ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں سورج طلوع ہوتا ہے؛ مگر یہ کہ دن یہ اعلان کرتا ہے کہ جو شخص نیک اعمال کر سکتا ہے، تو آج کر لے اس لئے کہ جب میں چلا جاؤں تو واپس نہیں آؤں گا۔ (شعب الایمان)

لہذا ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری زندگی نیک اعمال کرے اور گناہوں سے بچے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ کلمہ ”لا إله إلاّ الله“ پڑھے، وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے دریافت کیا کہ کلمہ اخلاص کے ساتھ پڑھنے کی کیا علامت ہے؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کلمہ اخلاص کے ساتھ پڑھنے کی علامت یہ ہے کہ کلمۂ طیّبہ اس شخص کو ان تمام بُرے کاموں سے روکے، جن کو الله سبحانہ وتعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ (معجم الاوسط)

وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴿۳﴾‏‎ ‎

اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے ﴿۳﴾

تیسرا اور چوتھا کام:

تیسرا اور چوتھا کام یہ ہے کہ اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کو اچھے اور نیک اعمال کی ترغیب دیں اور ہمہ وقت دین پر قائم رہنے اور ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب  کی تلقین کریں۔

اگر کوئی شخص دین پر مضبوطی سے قائم رہے، پابندی سے نیک اعمال کرے، ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب کرے اور اس کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے، تو ایسا آدمی بھی دوسروں کے بارے میں فکر مند مانا جائےگا کہ وہ ان کو ان چیزوں کی ترغیب دے رہا ہے، جن پر وہ عمل پیرا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی دو بڑی ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے۔ پہلی ذمہ داری لوگوں کو سچائی اور نیکی کی دعوت دینا ہے اور دوسری ذمہ داری لوگوں کو بُرائی اور گناہ سے روکنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا ہے۔

 دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی اور مکمل کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان صرف اپنی ترقی کی فکر نہ کرے؛ بلکہ دوسروں کی دینی ترقّی کی بھی فکر کرے اور اس کے لئے بقدر استطاعت کوشش کرے۔

آج کل ہماری حالت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ صرف اپنے اعمال کی فکر کرتے ہیں اور دوسروں کی دینی ترقّی اور اصلاح کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے ہیں۔

لہذا  اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم جس طرح اپنی اصلاح اور اپنی ترقّی کے بارے میں فکر کرتے ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پوری امّت کے بارے میں سوچیں اور ان کو دین کی  طرف بلانے کی پوری جدّوجہد کریں۔

Check Also

سورہ فلق کی تفسیر

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن …