عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا التشهد التحيات الطيبات الزاكيات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم (سنن الدارقطني، الرقم: 1330، وفيه موسى بن عبيدة الربذي وهو ضعيف كما في القول البديع صـ 365، وفي شرح ابن ماجة للمغلطاي صـ 1523: وفي حديث موسى بن عبيدة وخارجة وهما ضعيفان: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا التشهد التحيات الطيبات الزاكيات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله ثم يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم وفي العلل الكبير للترمذي: سألت محمدا عن هذا الحديث فقال: روى شعبة عن أبي بشر عن مجاهد عن ابن عمر وروى سفيان عن مجاهد عن أبي معمر عن أبي مسعود وهو المحفوظ عندي)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد کی دعا (التحيات الطيبات الزاكيات لله الخ) سکھاتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (تشہد کی دعا پڑھنے کے بعد) درود شریف پڑھنا چاہیئے۔
ایک انصاری صحابی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنی ہی عمارت کو زمین بوس کر دینا
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ میں کسی راستہ سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلند عمارت دیکھی، تو آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ فلاں انصاری کی نئی عمارت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
پھر وہ انصاری صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سلام کیا؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرۂ مبارک پھیر لیا۔ انہوں نے دوبارہ سلام کیا؛ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ برتاؤ دیکھ کر ان کو فکر لاحق ہوئی کہ آخر مجھ سے کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے، تو انہوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نئی عمارت کے پاس سے گزرے تھے اور اس کے بارے میں سوال کیا تھا۔
یہ سن کر وہ صحابی فوراً اپنے گھر گئے اور اس نئی عمارت کو زمین بوس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع بھی نہیں دی کہ میں نے وہ عمارت منہدم کر دی ہے۔
کچھ دنوں کے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اس راستے سے گزرے اور سوال کیا: وہ عمارت کہاں گئی، جو میں نے پچھلی مرتبہ یہاں دیکھی تھی؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ انہوں نے (انصاری صحابی نے) اس عمارت کو گرا دیا ہے؛ کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ آپ اس سے خوش نہیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر عمارت اپنے مالک کے لیے وبال ہے؛ مگر جو ضروری ہو۔ (سنن ابی داؤد)
اُس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے اِس طرزِ عمل سے واضح ہو گیا کہ ان کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور بے پناہ محبّت تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرّہ برابر ناراضگی ناقابلِ برداشت تھی اور جب انہیں محسوس ہوتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کسی عمل سے ناراض ہیں، تو وہ فوراً اس سے باز آ جاتے تھے۔
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: