باغِ محبّت (بارہویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

عورتوں کا اسلامی لباس

اسلام ایک مکمل دستورِ حیات ہے۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہدایتیں ہیں۔ اسلام انسان کو لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا صحیح طریقہ سکھاتاہے اور دین اور دنیا کے تقاضوں پر عمل کا صحیح  راستہ بتاتا ہے۔ نیز انسانی حقوق کی ادئیگی کی تاکید کرتا ہے اور اعلیٰ اخلاق واقدار کے ساتھ متصف ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سچائی، راست گوئی، امانت داری، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، لوگوں کے ساتھ رواداری اور اچھّا برتاؤ، نیز حیادار اور پُر وقار لباس زیب تن کرنے کی ترغیب وتاکید میں کوئی بھی مذہبِ اسلام کے ہم پلہ نہیں ہے اور اسلام نے جن اعلیٰ اخلاق واقدار کی تاکید کی ہے، ان میں ”حیا“ سرِ فہرست ہے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ ”حیا“ کا تعلق صرف لباس سے نہیں ہے، تاہم لباس کے اندر شرم وحیا کا لحاظ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے؛ اس لیے کہ انسان اپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے مذہبی شعار سے اس کے مذہب کا پتہ چلتاہے؛ لہذا انسان جب اسلامی لباس زیب تن کرتا ہے، تو اس سے اسلام کی خوب صورتی کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس کے لباس کو دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آدمی ”مسلمان“ ہے۔

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی کی ہے کہ میری امّت پر ایک ایسا زمانہ آئےگا جس میں ہر طرف فتنے پھیل جائیں گے، عورتیں انتہائی باریک لباس پہنیں گی یا اتنا چست لباس پہنیں گی، جس سے ان کے بدن کی ہیئت ظاہر ہوگی۔ ایسی عورتوں کے لیے متعدد احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہوں گے، جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے(ظلم کریں گے) اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے، جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی(کیونکہ وہ انتہائی چست یا انتہائی باریک لباس پہنیں گی، جس سے ان کے بدن کی ہیئت آشکارا ہوگی) وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی مردوں کی طرف مائل ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح ہوں گے۔ وہ عورتیں جنّت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنّت کی خوشبو پائیں گی، جب کہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔“ (مسلم شریف)

حدیثِ بالا سے ظاہر ہے کہ ہمیں اور خصوصاً عورتوں کو کیسا لباس پہننا چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لباس پر نظر رکھتے تھے اور اگر آپ کو از روئے شرع کسی صحابی کا لباس نامناسب نظر آتا تو آپ فوراً ان کی اصلاح فرماتے اور مناسب لباس پہننے کی تاکید کرتے۔

چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئیں کہ ان کے جسم پر باریک کپڑے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کی اصلاح فرمائی اور ان سے فرمایا کہ عورت کے جسم کا کوئی بھی حصّہ نظر نہیں آنا چاہیئے یعنی عورتوں کے لیے جس طرح باریک کپڑے پہننا مناسب نہیں ہے، اسی طرح  اتنا تنگ کپڑا پہننا بھی مناسب نہیں ہے، جس سے اس کے بدن کی ہیئت ظاہر ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت ان کے ذہن ودماغ میں اس طرح گھر کر گئی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایّام تک اس پر عمل پیرا رہیں، چنانچہ ایک واقعہ منقول ہے کہ جب ان کے صاحبزادے حضرت منذر بن زبیر رضی اللہ عنہ عراق سے تشریف لائے، تو انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک کپڑا پیش کیا، جو اعلیٰ قسم کے سوت سے تیّار کیا گیا تھا؛ لیکن وہ تنگ تھا۔

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس کپڑے کو اپنے ہاتھ سے ٹٹولا (چوں کہ اس وقت ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی) اور فرمایا:  اُف ! اس کپڑے کو واپس کر دو۔ جب انہوں نے اس کو لوٹا دیا، تو حضرت منذر بن زبیر رضی اللہ عنہ پر یہ بات شاق گزری۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ماں سے عرض کیا: امیّ جان ! یہ کپڑا اتنا باریک نہیں ہے کہ اس سے جسم کی ہیئت نظر آئےگی۔ آپ یہ کپڑا پہن سکتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: تمہاری بات ٹھیک ہے؛ مگر یہ کپڑا تنگ ہے، تنگ ہونے کی وجہ سے میرے جسم کی ہیئت ظاہر ہوگی۔ پھر انہوں نے ان کے لیے مرو میں بنے ہوئے عام کپڑے خریدے تو انہوں نے قبول کر لیا اور فرمایا: مجھے اس قسم کے کپڑے پہنایا کرو (کیوں کہ یہ سنّت کے مطابق ہے)۔ (طبقات الکبرٰی)

عورت کا اسلامی لباس

اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کا لباس مندرجہ ذیل خوبیوں کا حامل ہونا چاہیئے:

(۱) جس لباس کو عورت پہنے وہ اس کے پورے بدن کو چھپائے، اگر پورے بدن کو نہ چھپائے، تو وہ شرعی لباس نہیں کہلائےگا؛ کیونکہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دونوں پیروں اور گٹوں سمیت ہاتھوں کے علاوہ اپنے پورے بدن اور بال کو اجنبی مردوں سے چھپائے۔

(۲) عورت کا لباس اتنا باریک یا تنگ نہ ہو، جس سے عورت کے بدن کی ہیئت ظاہر ہو۔ اگر اس کے بدن  کی ہیئت ظاہر ہوگی، تو ”کاسیات عاریات“ والی حدیث کے اندر داخل ہوگی۔

(۳) جب عورت اپنے گھر سے نکلے، تو حیا اور وقار کا ضرور خیال رکھے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب وہ گھر سے نکلے، تو حجاب پہن کر نکلے اور خوشبو نہ لگائے؛ اس لیے کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جنسِ مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے اور پُر کشش لباس کو دیکھ کر اور زیادہ میلان پیدا ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ انسان فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

(۴) ہر صنف کو چاہیئے کہ دوسرے صنف کے لباس سے اجتناب کرے یعنی مرد، عورت کا لباس نہ پہنے اور عورت مرد کا لباس نہ پہنے؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”اللہ تعالیٰ ان مردوں پر لعنت بھیجتے ہیں، جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پرلعنت بھیجتے ہیں، جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔“ (طبرانی)

ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں میں صفت ”حیا“ کو زندہ فرمائیں اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں اور ازواجِ مطہرات کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17045


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد دنیا میں دین قائم کرنے کے …