عن أوس بن أوس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال: قالوا: يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت يقولون بليت فقال: إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء (سنن أبي داود، الرقم: ۱٠٤۷، وقال الحاكم في مستدركه، الرقم: ۱٠۲۹: هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه وأقره الذهبي)
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے افضل دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ اسی دن صور پھونکا جائےگا اور اسی دن (صور کی آواز سے) لوگ بے ہوش ہوں گے؛ لہذا تم اس دن (جمعہ کے دن) مجھ پر کثرت سے درود بھیجو؛ کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود کیسے آپ کے سامنے پیش کیا جائےگا، جب کہ (موت کے بعد) آپ بوسیدہ ہو گئے ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ محبت
صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا) قریش کے نمائندے کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے برتاؤ اور طرزِ عمل کو غور سے ملاحظہ کیا۔
چنانچہ جب وہ قریش کے پاس واپس گئے، تو انہوں نے اپنے تاثّرات اس طرح بیان فرمائے:
اے قریش! میں بڑے بڑے بادشاہوں کے یہاں گیا ہوں۔ قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے درباروں کو بھی دیکھا ہے اور ان کے آداب بھی دیکھے ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کی جماعت اس کی ایسی تعظیم کرتی ہو، جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ان کی تعظیم کرتی ہے۔
اگر وہ تھوکتے ہیں، تو جس کے ہاتھ پڑ جائے، وہ اس کو بدن اور منھ پر مَل لیتا ہے۔ جو بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ سے نکلتی ہے، اس کے پورا کرنے کو سب کے سب ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی وضو کا پانی آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم کرتے ہیں۔ زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ اگر کسی کو قطرہ نہ ملے، تو وہ دوسرے کے تَر ہاتھ کو ہاتھ سے مَل کر اپنے منھ پر مَل لیتا ہے۔
ان کے سامنے بولتے ہیں، تو بہت نیچی آواز سے۔ ان کے سامنے زور سے نہیں بولتے۔ ان کی طرف نگاہ اٹھا کر ادب کی وجہ سے نہیں دیکھتے۔ اگر ان کے سر یا داڑھی کا کوئی بال گرتا ہے، تو اس کو تبرّکاً اٹھا لیتے ہیں اور اس کی تعظیم اور احترام کرتے ہیں۔
غرض میں نے کسی جماعت کو اپنے آقا کے ساتھ اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا، جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ان کے ساتھ کرتی ہے۔ (فضائل اعمال، ص ۱۶۶)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر کسی کی طرف سے سلام پہونچانا
حضرت یزید بن ابی سعید المدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ایک مرتبہ (جب میں نے مدینہ منوّرہ کے سفر کا ارادہ کیا، تو روانگی سے قبل) میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے مجھ سے فرمایا: میری ایک تمنّا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کی تکمیل کر لے۔ میں نے عرض کیا: امیر المؤمنین: آپ کی کیا تمنّا ہے جس کی میں تکمیل کر دوں؟
انہوں نے جواب دیا: جب آپ مدینہ منوّرہ پہونچے اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کے سامنے حاضر ہو جاوے، تو آپ میرا سلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہونچا دے۔ (شعب الایمان، القول البدیع)
يَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: