
لما احتضر سيدنا بلال رضي الله عنه قال: غدا نلقي الأحبة، محمدا وحزبه
فقالت له امرأته حزينة: واويلاه!
فقال سيدنا بلال رضي الله عنه: وافرحاه! (فقد حان وقت لقاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والصحابة رضي الله عنهم) (من سير أعلام النبلاء ٣/٢٢٣)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے فرمایا کہ کل کو دوستوں سے ملیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے ملیں گے۔
یہ سن کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے افسوس سے کہا کہ مجھے (آپ کی جدائی کا) کتنا غم ہے!
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: کتنی خوشی کی بات ہے! (یعنی میں اس وقت بہت خوش ہوں؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے میری ملاقات کا وقت قریب آ گیا ہے)۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی مدینہ منورہ کی طرف واپسی
علامہ زرقانی رحمہ الله نے صحیح سند کے ساتھ حافظ ابن عساکر رحمہ الله سے درج ذیل واقعہ نقل کیا ہے:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی الله عنہ کے لیے مدینہ منورہ میں رہنا دشوار تھا؛ کیوں کہ ان کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی اور مدینہ منورہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ناقابل فراموش یادیں تھیں۔
چناں چہ حضرت بلال رضی الله عنہ مدینہ منورہ سے نکل کر مقام داریہ (جو شام میں ایک جگہ ہے) منتقل ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد شام میں قیام کے دوران حضرت بلال رضی الله عنہ نے ایک رات خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا۔
خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے بلال! آپ مجھ سے کیوں دور ہو گئے ہیں؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ آپ مجھ سے ملنے کے لیے آئیں؟
جب حضرت بلال رضی الله عنہ نیند سے بیدار ہوئے، تو وہ اس قدر غمگین اور فکرمند ہوئے کہ وہ فوراً اپنی سواری پر بیٹھ کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
جب وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے پہنچے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور آپ کی جدائی پر شدتِ غم سے مغلوب ہو کر فوراً زار وقَطار رونے لگے۔
اس کے بعد حضرت حسن اور حضرت حسین رضی الله عنہما ان سے ملنے آئے۔ ان کو دیکھ کر حضرت بلال رضی الله عنہ نے ان کو گلے لگایا اور ان کو بوسہ دیا؛ کیوں کہ ان کے دل میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کے لیے بے حد محبت تھی۔
اس کے بعد حضرت حسن اور حضرت حسین رضی الله عنہما نے حضرت بلال رضی الله عنہ سے فرمایا کہ ہم آپ کی اذان سننا چاہتے ہیں، جس طرح آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے اذان دیتے تھے۔
چناں چہ حضرت بلال رضی الله عنہ اذان دینے کے لیے ایک بلند مقام پر چڑھ گئے۔ جیسے ہی انہوں نے اذان دینا شروع کیا اور الله اکبر الله اکبر کہا، تو مدینہ منورہ کی گلیاں ان کی مبارک آواز سے گُونجنے لگیں۔
جب وہ اذان کے اگلے کلمات کہتے گئے، مدینہ منورہ میں گُونج بڑھتی گئی؛ یہاں تک کہ عورتیں اور بچے گھروں سے نکل آئے۔ وہ سب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دورِ مبارک کی یاد کی وجہ سے رو رہے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان کی ایسی بے مثال محبت تھی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی دن مدینہ والوں کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، جتنا اس دن ان کو روتے ہوئے دیکھا گیا۔ (زرقانی ۵/۷۱)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી