حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط سوم
خواتین کے ساتھ احتیاط
احتیاط انسان کو بہت سے مضرات ومفاسد سے بچا لیتی ہے؛ اسی لیے حضرت ہر معاملہ میں احتیاط فرمانے کے عادی تھے۔
یہ اس احتیاط کا نتیجہ تھا کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں (اگر کوئی خاتون حضرت کے ساتھ اصلاح کرنا چاہتی تھی، تو حضرت کی شرط یہ تھی کہ وہ خاتون) اپنے خاوند کے دستخط کرا کر بھیجے؛ ورنہ اپنے کسی محرم کے دستخط کرائے۔ شوہر کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے محرم کے دستخط معتبر نہیں سمجھتے تھے؛ تاکہ بصورت اختلاف عقیدت میاں بیوی میں بعد میں لڑائی نہ ہونے لگے کہ ان کو کیوں خط لکھا۔
فرماتے تھے کہ میں میاں بیوی میں خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کو اپنے ساتھ (اصلاحی تعلق کے لیے) خط وکتابت رکھنے سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔
بیعت کے لیے مستورات کے سفر کو ناپسند فرماتے تھے اور خط کے ذریعہ بیعت کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور اگر کوئی مستوره دربارِ اشرفیہ تک پہنچ جاتی، تو اس سے اس وقت تک گفتگو نہ فرماتے؛ جب تک اس کا کوئی محرم پاس نہ بٹھا لیتے۔ (سیرتِ اشرف ۱/ ۳۱۴-۳۱۵)
انکسار
حضرت تھانوی پرلے درجہ کے منکسر المزاج تھے (یعنی آپ بہت زیادہ تواضع فرماتے تھے)۔ مشہور ہونے کی وجہ سے لوگوں نے آپ کے جاہ وجلال کے متعلق عجیب عجیب تصورات قائم کر رکھے تھے۔
اس لیے ایک دن آپ کے چھوٹے بھائی منشی اکبر علی نے آپ سے کہا کہ اب آپ بڑے آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ معمولی آدمی نہیں رہے۔ کم سے کم سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کریں (یعنی جب آپ ریل میں سفر کریں گے)۔
حضرت نے جواب دیا: میں کیا کروں۔ یہ میری طبیعت کے خلاف ہے۔ میں ریل میں گنواروں، بَھنگیوں اور چَماروں کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔ شان کیا چیز ہے۔ دو دن بعد بھنگی، چمار بھی مٹی ہوں گے اور میں بھی۔ (سیرتِ اشرف ۱/ ۳۲۲-۳۲۳)