الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱) الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (۲) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (۳) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۴) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۵) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (۶) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (۷)
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے (۱) جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے (۲) جو روزِ جزا کا مالک ہے (۳) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں (۴) ہمیں سیدھا راستہ دکھا (۵) ان لوگوں کا راستہ، جن پر تو نے (اپنے خصوصی فضل سے) انعام فرمایا (۶) نہ ان لوگوں کا راستہ، جن پر غضب نازل کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا راستہ، جو گمراہ ہوئے (۷)
تفسیر
سب سے پہلی سورت
سورہ فاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے۔ یہ سب سے پہلی سورت ہے قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے اور نزول کے اعتبار سے بھی یہ سورت سب سے پہلی سورت ہے، جو مکمل طور پر نازل ہوئی۔
سورہ فاتحہ کے نزول سے پہلے سورہ علق اور سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئی تھیں؛ مگر سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی مکمل سورت نازل نہیں ہوئی تھی۔
سورہ فاتحہ کو قرآن مجید کی تمام سورتوں پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ قرآن مجید کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے سورہ فاتحہ قرآن مجید کے تین اہم مضامین کو محیط ہے۔ اس لیے گویا کہ سورہ فاتحہ قرآن مجید کا متن اور قرآن مجید کا بقیہ حصہ اس کی تفسیر ہے، جس میں اس کے تین اہم موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے تین اہم مضامین
پورے قرآن مجید میں جتنے علوم بیان کیے گئے ہیں، ان کا تعلق تین اہم مضامین میں سے کسی ایک سے ہے:
(۱) اللہ کی وحدانیت اور اس کی صفات پر ایمان لانا۔
(۲) اللہ کے منتخب بندوں (یعنی انبیاء کرام علیہم السلام) کی رسالت پر ایمان لانا اور اعمال صالحہ میں ان کی پیروی کرنا۔
(۳) آخرت کی زندگی پر ایمان لانا۔
سورہ فاتحہ میں ان تینوں اہم مضامین کے بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ کو احادیث مبارکہ میں جن ناموں سے موسوم کیا گیا ہے، ان میں ایک نام “ام القرآن” (قرآن کا خلاصہ) اور دوسرا نام “ام الکتاب” (کتاب کا خلاصہ) ہے۔
سورہ فاتحہ کا پیغام
جب ہم اس سورت کے مضمون میں غور کرتے ہیں، تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر انسان کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اللہ سے کس طرح دعا کرے اور اس سے کس طرح رہنمائی حاصل کرے۔
چناں چہ اس سورت میں انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ اسے ان لوگوں کا راستہ دکھائے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انعام فرمایا ہے اور اسے ان لوگوں کے راستے سے بچائے، جن پر اس کا غضب نازل ہوا ہے اور ان لوگوں کے راستے سے بھی بچائے، جو گمراہ ہوئے۔
اللہ تعالیٰ انسان کی اس دعا کو اس طرح قبول فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اس کو ایسی ہدایت عطا فرماتے ہیں، جو قرآن مجید میں نازل کی گئی ہے، تو گویا کہ قرآن مجید کا بقیہ حصہ انسان کی اس دعا کا جواب ہے۔