زکوۃ کی تاریخ
جب کوئی شخص زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر مال کا مالک ہو جائے اور وہ مال اس کے پاس پورا ایک سال تک رہے، اس دن سے جب سے اس کو ملا (اسلامی سال کے اعتبار سے)، تو اس مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
مثال کے طور پر زکوٰۃ کا نصاب پینتیس ہزار روپئے ہیں۔ زید اسلامی سال سن ١٤٤۵ ہجری کے ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو پینتیس ہزار روپئے کا مالک بنا اور یہ روپئے پورے اسلامی سال اس کی ملکیت میں رہے، تو یکم محرم سن ١٤٤۶ ہجری کو اس مال (پینتیس ہزار روپئے) پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر دورانِ سال مال کم ہو جائے، مثال کے طور پر پینتیس ہزار روپئے میں سے پانچ ہزار روپیہ کم ہو جائے؛ لیکن سال کے آخر میں وہ مال پینتیس ہزار یا اس سے زیادہ ہو جائے، تو زکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر سال کے دوران پورا مال پینتیس ہزار ختم ہو جائے (یعنی کچھ بھی باقی نہ رہے)، تو ایک سال کے بعد اگرچہ زکوٰۃ کا پورا نصاب حاصل کر لے، تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔ ہاں، مال کے ختم ہونے کے بعد جس وقت سے اس کو دوبارہ زکوٰۃ کا نصاب ملا، جب ایک سال اس مال پر پورا ہو جائے، تو اس مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
زکوٰۃ کی تاریخ سے پہلے مال کا ملنا یا مال کا کم ہو جانا
صاحبِ نصاب ہونے کے بعد اگر کسی شخص کو سال کے دوران کچھ مزید مال مل جائے، تو سال کے ختم ہونے پر اس مزید مال پر بھی زکوۃ فرض ہوگی؛ بشرطیکہ وہ مزید مال اس کی زکوٰۃ کی تاریخ پر اس کے پاس باقی رہے؛ لہذا زکوٰۃ کی تاریخ پر جتنا مال انسان کے پاس ہو، اتنے مال پر وہ زکوٰۃ ادا کرے۔
مثال کے طور پر زید صاحبِ نصاب ہے، اس کی زکوٰۃ کی تاریخ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے۔ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے کچھ دن پہلے زید کو دس لاکھ روپئے وراثت میں ملے، تو زید کے ذمہ اس مزید دس لاکھ روپئے پر بھی زکوٰۃ فرض ہوگی۔
اسی طرح اگر کسی کا مال اس کی زکوٰۃ کی تاریخ سے پہلے کم ہو جائے، تو وہ کم شدہ مال پر زکوۃ ادا نہیں کرےگا؛ بلکہ زکوٰۃ کی تاریخ پر جتنا مال اس کے پاس ہو، اتنے مال پر وہ زکوٰۃ ادا کرےگا۔
مثال کے طور پر زید کی زکوٰۃ کی تاریخ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے۔ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے کچھ دن پہلے زید کو تجارت میں پچاس ہزار روپئے کا نقصان ہوا، تو زید اس پچاس ہزار پر زکوۃ ادا نہیں کرےگا۔