قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے) کہہ دیجیئے کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی (۱) انسانوں کے بادشاہ کی (۲) انسانوں کے معبود کی (۳) اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو پیچھے ہٹ جاتا ہے (۴) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے (۵) خواہ جنّات میں سے ہو یا انسانوں میں سے (۶)
روحانی شرور سے پناہ مانگنا
پچھلی سورت (یعنی سورہ فلق) میں بنیادی طور پر جسمانی تکلیفوں اور شرور سے پناہ مانگی گئی تھی (اگرچہ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ {اللہ تعالٰی کی پیدا کردہ تمام چیزوں کے شر سے پناہ ماگتا ہوں} کے عموم میں روحانی تکلیفیں اور برائیاں بھی شامل تھیں)۔
اس سورت میں روحانی تکلیفوں اور شرور سے پناہ مانگی گئی ہے۔
چونکہ روحانی تکلیفیں اور شرور جسمانی تکلیفوں اور شرور سے کہیں زیادہ بدتر ہیں، اس لیے اس سورت کے ساتھ قرآن مجید کا اختتام کیا گیا ہے۔
جو بھی جسمانی شر اور تکلیف انسان کو پہنچتی ہے، وہ انسان کی زندگی تک محدود رہتی ہے۔ جیسے ہی انسان کا انتقال ہوتا ہے، اس کی آزمائش اور تکلیف ختم ہو جاتی ہے۔
جہاں تک روحانی شر اور تکلیف کی بات ہے، تو یہ صرف دنیوی زندگی تک محدود نہیں رہتی ہے؛ بلکہ وہ آخرت میں بھی انسان کو پہنچتی ہے؛ لہذا اس سے یہ بات واضح ہے کہ روحانی تکلیفیں اور شرور دنیا کی جسمانی تکلیفوں اور شرور سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہیں۔