باغ محبت – سینتیسویں قسط‎ ‎

اللہ تعالیٰ کی رحمت ونصرت کے حصول کا راستہ

اللہ تعالیٰ نے جنت کو راحت وآرام کی جگہ بنائی ہے اور جہنم کو مصیبت وپریشانی کی جگہ بنائی ہے۔

جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے خوشی وغم اور راحت ومصیبت کا مجموعہ بنایا ہے۔ زندگی میں بعض مواقع ایسے پیش آتے ہیں، جو انسان کے لیے باعثِ خوشی اور سکون ہوتے ہیں، جب کہ کچھ مواقع ایسے پیش آتے ہیں، جو انسان کے لیے حزن وغم اور مصیبت وپریشانی کا سبب بنتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسان کے لیے ایک ’’آزمائش گاہ‘‘ بنایا ہے؛ تاکہ یہ دیکھا جائے کہ دونوں حالتوں یعنی خوش حالی اور بد حالی میں انسان کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔

بہت سی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان صحت مند اور دولت مند ہوتا ہے اور اس کی زندگی بڑی آرام دہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی صحت اور دولت پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ زندگی میں جو بھی مسئلے پیش آئےگا، وہ اس کو حل کر لےگا۔ تاہم، پھر وہ ایک شدید بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی صحت باقی نہیں رہتی ہے۔

چنانچہ وہ اپنی صحت کی خاطر اپنی پوری دولت بہترین ہسپتالوں اور ماہر ڈاکٹروں کی فیس میں خرچ کر دیتا ہے؛ لیکن چونکہ اس کے لیے شفا مقدر نہیں ہوتی ہے، اس لیے بہترین ہستپال اور ماہر ڈاکٹر اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پاتے ہیں اور نہ اس کو بیماری اور تکلیف سے آرام دے پاتے ہیں؛ لہذا آخر کار وہ اپنی صحت اور دولت دونوں کو کھو دیتا ہے۔

اور جب اس کے پاس نہ صحت باقی رہتی ہے، نہ دولت، تو اس وقت اس کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے اور اس کو احساس ہوتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اس کی مدد کر سکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور وفادار رہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور وفادار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس پر اپنا خصوصی فضل فرماتے ہیں اور اس کے لیے تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نکلنے کا حل نکال دیتے ہیں؛ یہاں تک کہ اگر اس کی موت مقدر ہو، تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی خاص رحمت نازل فرماتے ہیں اور اسے اچھی موت عطا فرماتے ہیں۔

ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں قبیلے نے ہم پر حملہ کر کے ہمارا مال لوٹ لیا ہے۔ میرے بیٹے کو بھی گرفتار کر لیا ہے اور میرے تمام اونٹ چھین لیے ہیں۔

یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے؛ لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس صحابی کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، اس لیے آپ نے ان کو جواب دیا:

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے اور مدینہ منورہ کے بہت سے دوسرے گھرانے اس قدر غربت کے شکار ہیں کہ ان کے پاس کھانے کا ایک صاع نہیں ہے؛ بلکہ ایک مُد (چوتھائی صاع) بھی نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور ان سے اپنی حاجتیں مانگیں۔

جب حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ گھر واپس آئے، تو ان کی اہلیہ نے ان سے پوچھا کہ جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا؟ حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت فرمائی ہے، تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نصیحت فرمائی ہے، وہ بہترین نصیحت ہے؛ لہذا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔

اس کے بعد وہ دونوں دعا میں مشغول ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی دیر بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کو اونٹوں سمیت واپس کر دیا۔ اونٹوں کی یہ حالت تھی کہ پہلے سے زیادہ موٹے ہو چکے تھے۔

ان کو دیکھ کر حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اس قدر خوش ہوئے کہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ کی اطلاع دی۔

اس خوش خبری کو سن کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں سے خطاب فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نصیحت کی اور انہیں مصیبت وپریشانی کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور غیبی مدد حاصل کرنے کا راستہ بتایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ وہ دو چیزوں کو مضبوطی سے پکڑ لیں:

۱۔ پہلی چیز یہ ہے کہ وہ تقویٰ والی زندگی گزاریں اور کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں۔

۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور ان سے اپنے رحم وکرم کی بھیگ مانگیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بندے کی پریشانی کو دور کرنے والا ہے اور اس کے لیے آسانی پیدا کرنے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ‎﴿٢﴾‏ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نجات کی شکل نکلا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ (از بیان القرآن)

Check Also

باغ محبت – اڑتیسویں قسط‎ ‎

کبھی بھی کسی بھی شخص کی اصلاح سے مایوس مت ہونا عبد اللہ بن مسلمہ …