عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتبعته حتى دخل نخلا فسجد فأطال السجود حتى خفت أو خشيت أن يكون الله قد توفاه أو قبضه قال: فجئت أنظر فرفع رأسه فقال: ما لك يا عبد الرحمن قال: فذكرت ذلك له فقال: إن جبريل عليه السلام قال لي: ألا أبشرك إن الله عز وجل يقول لك: من صلى عليك صليت عليه ومن سلم عليك سلمت عليه (مسند أحمد، الرقم: 1662 ، وقال البيهقي في الخلافيات 3/143 (عن طريق لهذه الرواية بنحو هذه الألفاظ): قال أبو عبد الله رحمه الله: هذا حديث صحيح)
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اپنے گھر سے) نکلے، تو میں آپ کے پیچھے چل پڑا؛ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک کھجور کے باغ میں داخل ہوئے اور سجدے میں گر پڑے۔ آپ نے بہت لمبا سجدہ کیا؛ یہاں تک کہ میرے دل میں اندیشہ پیدا ہوا کہ آپ کی روح پرواز کر گئی؛ لہذا میں (آپ کی حالت) دیکھنے کے لیے آپ کے قریب آیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پوچھا: عبد الرحمٰن! کیا بات ہے؟ میں نے اپنا اندیشہ بیان کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا میں آپ کو یہ خوش خبری نہ دوں کہ الله تعالیٰ آپ سے فرما رہے ہیں کہ جو آپ پر درود بھیجتا ہے، میں اس پر درود (رحمت) بھیجتا ہوں اور جو آپ پر سلام بھیجتا ہے، میں اس پر سلام بھیجتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ درود لکھنے کا التزام
ابو الحسن میمونی رحمہ الله کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ ابو علی رحمہ الله کو خواب میں دیکھا کہ ان کی انگلیوں کے اوپر کوئی چیز سونے یا زعفران کے رنگ سے لکھی ہوئی تھی۔
میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں حدیثِ پاک کے اوپر صلی الله علیہ وسلم لکھا کرتا تھا۔ (القول البدیع، فضائلِ درود، ص ۱۴۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوش خبری
حضرت محمد عُتْبِی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبرِ اطہر پر زیارت کے لیے حاضر ہوا۔
اسی دوران ایک اعرابی آیا اور اس نے اپنا اونٹ مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بیٹھا دیا، پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کی طرف بڑھا اور انتہائی عاجزی ومحبت کے ساتھ صلوۃ وسلام پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے نہایت خوب صورت انداز میں دعا کی۔
پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والدین آپ پر قربان ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو آخری نبی بنایا ہے اور آپ پر وحی (یعنی قرآن مجید کی وحی) نازل فرمائی ہے۔ نیز اللہ تعالی نے آپ پر ایسی انوکھی اور جامع کتاب (یعنی قرآن مجید) اتاری ہے، جس میں تمام انبیائے کرام اور رسولوں کے علوم ہیں۔
اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴿٦٤﴾
اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آ جاتے اور آ کر اللہ تعالیٰ شانہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے معافی مانگتے، تو ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا پاتے۔
پھر اس اعرابی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس آیتِ کریمہ کے حکم کی تعمیل میں آپ کے روضہ پر حاضر ہوا ہوں۔ بے شک گناہوں کے ارتکاب سے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔ میں آپ کی شفاعت کا طالب ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔
پھر وہ قبرِ اطہر کی طرف متوجہ ہوئے اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھے:
يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ ** فَطَابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ
اے بہترین ذات! ان سب لوگوں میں جن کی ہڈیاں ہموار زمین میں دفن کی گئیں کہ ان کی وجہ سے زمین اور ٹیلوں میں عمدگی پھیل گئی۔
نَفْسِيْ الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ ** فِيْهِ الْعَفَافُ وَفِيْهِ الْجُوْدُ وَالْكَرَمُ
میری جان قربان اس قبر پر، جس میں آپ مقیم ہیں کہ اس میں عفت ہے۔ اس میں جود ہے۔ اس میں کرم ہے۔
أَنْتَ الشَّفِيْعُ الَّذِي تُرْجَى شَفَاعَتُهُ ** عِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا مَا زَلَّتِ الْقَدَمُ
آپ ایسے سفارشی ہیں، جن کی سفارش کے ہم امید وار ہیں۔ جس وقت کہ پُل صراط پر لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوں گے۔
وَصَاحِبَاكَ لَا أَنْسَاهُمَا أَبَدًا ** مِنِّي السَّلَامُ عَلَيكُمْ مَا جَرَى الْقَلَمُ
اور آپ کے دو ساتھیوں کو تو میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔ میری طرف سے تم سب پر سلام ہوتا رہے؛ جب تک کہ دنیا میں لکھنے کے لیے قلم چلتا رہے یعنی قیامت تک۔
یہ اشعار پڑھنے کے بعد وہ اعرابی اپنی سواری پر بیٹھ کر جانے لگے۔
محمد عُتبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے جانے کے بعد میری آنکھ لگ گئی، تو میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں کہ اے عُتبی! جاؤ اور اس اعرابی کو میری طرف سے خوش خبری سناؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (الإيضاح في مناسك الحج والعمرة صـ ٤٥٥، الأذكار للنووي صـ ۳۰۴، القول البديع صـ ۳۴۲)
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=5553