سورہ لہب کی تفسیر

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ‎﴿١﴾‏ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ‎﴿٢﴾‏ سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ‎﴿٣﴾‏ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ‎﴿٤﴾‏ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ ‎﴿٥﴾‏

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو جائے (۱) نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (۲) وہ عنقریب بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا (۳) اور اس کی بیوی بھی، جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے (۴) اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی (مضبوطی سے بٹی ہوئی رسی کے مانند لوہے کا طوق ہوگا)۔

شان نزول

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت ِکریمہ -وأنذر عشيرتك الأقربين- (اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈرائے، اگر وہ ایمان نہیں لائے) نازل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور قریش کے مختلف قبائل کو “یا بنی عبد مناف، یا بنی عبد المطلب” وغیرہ ناموں کے ساتھ آواز دی۔

جب قریش کے مختلف قبیلوں کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی، تو وہ آپ کی بات سننے کے لیے جمع ہو گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا:

 اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں دشمن ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، تو کیا تم لوگ میری تصدیق کروگے؟

 سب نے بیک زبان کہا کہ ہم آپ کی ضرور تصدیق کریں گے؛ کیوں کہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا یا خیانت کرنے والا نہیں پایا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اگر تم میری دعوت قبول نہیں کروگے، تو میں تمہیں آخرت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔

 جب ابو لہب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی، تو وہ غصہ سے آگ بگولا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا: تبا لك ألهذا جمعتنا (ہلاکت ہو تیرے لیے، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا)۔

اسی موقع پر یہ سورت نازل ہوئی۔

اس سورت میں اللہ تعالی نے ابو لہب کے لیے بد دعا کے وہی الفاظ استعمال کیے ہیں، جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کیے تھے۔

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ‎﴿١﴾

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو جائے (۱)

اس آیت کریمہ میں لفظِ “ید” کا ذکر کیا گیا ہے۔ لفظِ “ید” کے اصلی معنی ہاتھ کے ہیں۔

ہاتھ کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے کام پورا کرنے میں ہاتھوں کا بہت بڑا دخل ہے؛ اس لیے الله تعالی نے اس آیت کریمہ میں ہلاکت کو ابو لہب کے ہاتھوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

بسا اوقات عربی زبان میں لفظِ “ید” بولا جاتا ہے؛ لیکن اس سے انسان کی پوری ذات مراد کی جاتی ہے؛ لہذا اس آیت کریمہ میں بھی ابو لہب کے ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے؛ لیکن اس سے اس کی پوری ذات مراد ہے؛ کیونکہ اس کا پورا جسم عذاب میں مبتلا ہوگا اور جہنم کی آگ میں جلےگا۔

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کا وادی ابو طالب میں بائیکاٹ کیا گیا۔

اس دوران ابو لہب کچھ لوگوں سے ملا اور ان سے کہا:

محمد (صلی الله علیہ وسلم) ہمیں بہت سی چیزوں سے ڈراتے ہیں کہ مرنے کے بعد فلاں فلاں چیزیں پیش آنے والی ہیں (مثلاً عذابِ قبر وغیرہ)؛ لیکن میں ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہو، جو ہم میں سے (اسلام قبول کیے بغیر) مر چکے ہیں۔ میرے ہاتھوں کو کونسی سزا ملےگی؟ پھر اس نے اپنے ہاتھوں پر پھونک مارا اور کہا: تمہاری ہلاکت ہو! میں تمہارے اندر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں دیکھ رہا ہوں، جن کی خبر محمد (صلی الله علیہ وسلم) نے دی۔

اس کے بعد یہ سورت نازل ہوئی۔

ابو لہب کا برا انجام

ابو لہب مسلسل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دیتا رہا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی کرتا رہا اور لوگوں میں دین کی تبلیغ اور نشر واشاعت کرنے پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی تضحیک اور مذمت کرتا رہا؛ لیکن الله تعالی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی عزت وناموس کا دفاع کیا اور قرآن کریم میں ابو لہب پر لعنت بھیجی۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد بھی ابو لہب اپنے شر اور برائی سے باز نہیں آیا اور وہ مسلسل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتا رہا اور اسلام کے مشن کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

دوسری طرف یہ ہوا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ابو لہب کی مصیبتیں اور پریشانیاں بڑھنے لگیں؛ یہاں تک کہ غزوہ بدر کے سات روز بعد اس کے بدن میں طاعون کی گِلٹی نکلی، جس سے اس کے پورے جسم میں زخم پھیل گیا۔

اس کے گھر والوں اور بچوں نے اس کو الگ جگہ میں رکھ دیا؛ یہاں تک کہ کوئی اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہتا تھا اور بالآخر وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ بے کسی کی حالت میں مر گیا۔

مرنے کے بعد اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی؛ یہاں تک کہ اس کی لاش گلنے اور سڑنے لگی۔ اس کی بیماری کی وجہ سے کوئی بھی اس کی لاش کو چھونے کے لیے تیار نہیں تھا۔

آخرکار گاؤں والوں نے اصرار کیا کہ اس کی لاش کہیں پھینک دی جائے؛ چنانچہ کچھ غلام مزدوری پر رکھے گیے؛ تاکہ وہ ایک گڑھا کود کر اس کی لاش کو اس میں پھینک دیں۔

مگر غلاموں کو بھی اس کی لاش کو اپنے ہاتھوں سے چھونے کی ہمت نہیں تھی؛ لہذا انہوں نے اس کی لاش کو ایک لکڑی سے گڑھے میں پھینک دیا اور اوپر سے پتھر ڈال دیا۔

یہ وہ مصیبت اور رسوائی تھی جو اس کو اس دنیا میں لاحق ہوئی اور آخرت میں جس سزا اور عذاب سے دوچار ہوگا، وہ اس سے زیادہ دردناک اور بدتر ہوگا، جیسا کہ اس سورت میں بیان کیا گیا ہے۔

Check Also

سورہ نصر کی تفسیر

(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جب اللہ کی مدد اور فتح (فتح مکہ) آ جائے(۱) اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں (۲) تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجیے اور ان سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے(۳)...