بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ﴿۳﴾
(اے محمد صلی الله علیہ وسلم) جب الله کی مدد اور فتح (فتح مکہ) آ جائے (۱) اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق الله کے دین میں داخل ہو رہے ہیں(۲) تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجیے اور ان سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے (۳)
تفسیر
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی پوری زندگی کفّار نے آپ کی مخالفت کی اور آپ کے مشن کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلمانوں کو تکلیف پہونچانے اور ان کی زندگی تنگ کرنے کے لئے رات ودن طرح طرح کی تدبیریں کیں اور اسلام کو پورے طور پر مٹانے کی کوششیں کیں۔
مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے سے قبل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے کفار کے ہاتھوں پر سخت ترین اذیتیں، مصائب اور پریشانیاں اٹھائیں۔
مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی کفار کی کوششوں میں کمی نہیں آئی؛ بلکہ وہ اپنی کوششوں میں اضافہ کرتے رہیں؛ یہاں تک کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور قریش کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں اور بالآخر وہ وقت آیا کہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو فتح مبین (فتح مکّہ) عطا فرمائی۔
جب فتح مکہ ہوا، تو فتح مکّہ کا انجام گویا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی بھر کی محنت اور قربانی کا خلاصہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الله تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور ان کے معزّز صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو ان کی انتھک کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ دکھایا اور دنیا کے سامنے اسلام کی شان وشوکت کو ظاہر فرمایا۔
بعض مفسّرین کے نزدیک یہ سورت فتح مکّہ سے کچھ عرصہ قبل نازل ہوئی اور اس سورت کا نزول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے سے تقریباً ڈھائی سال پہلے ہوا (یعنی ہجرت کے آٹھویں سال میں)۔
اس سورت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو بشارت دی گئی تھی کہ عنقریب مکّہ مکرّمہ فتح ہونے والا ہے اور بہت سے قبائل اسلام قبول کریں گے۔
بعض آیتوں اور سورتوں کی تاریخ نزول
سورۂ فاتحہ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں سے سب سے پہلی سورت ہے، جو مکمل ایک ساتھ نازل ہوئی تھی، اگر چہ اس سے پہلے قرآن مجید کی چند آیتیں نازل ہوئی تھیں (مثلاً سورۂ علق اور سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتیں)۔
اسی طرح سورۂ نصر قرآن مجید کی تمام سورتوں میں سے سب سے آخری سورت ہے، جو ایک ساتھ مکمل نازل ہوئی تھی؛ اگر چہ اس کے بعد بھی چند آیتیں نازل ہوئی تھیں۔
مفسّرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورت (سورۂ نصر) کے بعد مندرجہ ذیل آیتیں نازل ہوئی تھیں:
(۱) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا)۔
یہ آیتِ کریمہ نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات میں جمعہ کے دن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً اسّی دن قبل نازل ہوئی تھی۔
(۲) آیت کلالہ جو وراثت سے متعلق ہے۔
یہ آیت کریمہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً پچاس دن قبل نازل ہوئی تھی۔
(۳) سورہ توبہ کی آخری آیت: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ (بے شک تمہارے پاس ایک رسول آیا ہے تم ہی میں سے)۔ یہ آیت قرآن کی آخری آیت سے پہلے نازل ہوئی تھی۔
یہ آیت کریمہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً پینتیس دن پہلے نازل ہوئی تھی۔
(۴) وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ (اور اس دن سے ڈرتے رہو جس میں تم سب الله کی طرف لوٹائے جاؤگے)۔
یہ آیت قرآن کی سب سے آخری آیت تھی جو نازل ہوئی تھی۔
یہ آیت کریمہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً اکیس (۲۱) دن پہلے نازل ہوئی تھی (بعض روایتوں کے مطابق یہ آیت آپ کی وفات سے تقریباً سات دن پہلے نازل ہوئی تھی)۔
وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾
اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں (۲)
مکہ مکرمہ کے فتح ہونے تک بہت سے قبائل قریش کے ردّ عمل کا انتظار کر رہے تھے؛ کیوں کہ تمام قبائل عرب میں قریش کی سب سے زیادہ عزّت وعظمت تھی، لہذا دیگر قبائل قریش کے منتظر تھے کہ قریش بالآخر کیا کریں گے۔
چنانچہ فتح مکّہ کے موقع پر جب قریش نے اسلام قبول کر لیا، تو بہت سے قبائل جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک وقت میں سات سو لوگ اسلام قبول کرنے اور کلمۂ شہادت پڑھنے کے لئے مدینہ منوّرہ آئے۔ نیز مختلف ملکوں کے لوگوں نے مدینہ منوّرہ کی طرف اپنے وفود بھیجا؛ تاکہ وہ اسلام قبول کریں اور کلمۂ شہادت پڑھیں۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ﴿۳﴾
تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجیے اور ان سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے (۳)
اس آیت کریمہ میں الله تعالی نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ لوگوں کو کثیر تعداد میں اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھیں، تو آپ الله تعالی کی حمد و ثنا اور عظمت و بڑائی بیان کریں اور استغفار کریں؛ کیونکہ عنقریب آپ کی مشن پورا ہو جائےگی اور آپ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جو زندگی الله تعالی نے ہمیں عطا کی ہے، اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو نام و نمود، شہرت و عزت اور ظاہری آن بان کے حصول میں صرف کریں یا لوگوں کے سامنے اپنی طاقت و قوت کا مظاہرہ کریں؛ جیسا کہ آج کل یہ غلط تصور پایا جاتا ہے؛ بلکہ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان الله تعالی کی اطاعت و بندگی کرے، صلاح و تقوی والی زندگی گزارے اور الله تعالی کے مخلوق کے ساتھ شفقت و محبت اور ہمدردی سے پیش آئے۔
ہم صرف اپنی فکر نہ کریں اور نہ ہی امور خیر کو اپنی طرف منسوب کریں؛ بلکہ ہم تمام امور کا اچھا انجام اور تمام کامیابیوں کو الله تعالی کی طرف منسوب کریں اور اس کو ان کا فضل و کرم سمجھیں۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو پوری طاقت و قوت حاصل تھی اور آپ ہر چیز کے مالک تھے، اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور آپ نے مکہ مکرمہ کی فتح کو صرف الله سبحانہ و تعالی کی طرف منسوب کریں اور یہ فتح انہی کی قدرت سے ہوئی ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں کیسے داخل ہوئے، اس کی عکاسی کرتے ہوئے ایک شاعر کہتا ہے:
فاتحانہ مکہ آئے سر جھکائے چشم نم امن کا اعلان کیا نادم ہوئے اہل وطن
مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ خطبہ کے آغاز میں آپ نے تین مرتبہ الله اکبر کہا، پھر الله تعالی کی حمد وثنا اور بڑائی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَحْدَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ
الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ تنہا ہے۔ الله نے اپنا وعدہ پورا کیا، انہوں نے اپنے بندے کی مدد کی اور انہوں نے تنہا تمام لشکروں کو شکست دی۔
ہر انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنے آپ سے سوال کرے کہ اگر اس کو طاقت و قوت اور غلبہ و اقتدار حاصل ہو جائے، تو لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہوگا؟
کیا وہ لوگوں کو حقارت اور تکبر کی نگاہ سے دیکھےگا اور اپنے آپ کو ان سے افضل وبرتر سمجھےگا یا وہ ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی کے ساتھ پیش آئےگا اور ان کو معاف کرےگا؛ جیسا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ساتھ کیا تھا، جنہوں نے آپ کے ساتھ اور آپ کے معزز صحابہ رضی الله عنہم کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔
اسی طرح رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طرز عمل سے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ اور عزت و عظمت کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا؛ بلکہ اس کو صرف الله تعالی کی طرف منسوب کیا؛ کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ انہیں عزت و عظمت اور فتح والا یہ دن صرف الله تعالی نے عطا کیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم الله تعالی کے سامنے انتہائی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کر رہے تھے؛ اس لیے کہ آپ اس بات کو جانتے تھے کہ انسان اللہ تعالی کا سراپا کمزور بندہ ہے اور الله تعالی ہی سب سے بڑے، سب سے اعلی و ارفع، تمام عیوب و نقائص سے منزہ، ہر اعتبار سے کامل اور ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
لہذا الله تعالی کی عظمت و بڑائی، تقدس شان اور رفعت و بلندی کو بیان کرنے کے لیے ہمیں سبحان الله و الحمد للله پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اپنی عاجزی، بے بسی اور کوتاہی کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں استغفار کی تعلیم دی گئی ہے۔
چنانچہ الله تعالی کی تسبیح وتقدیس اور حمد و ثنا کے ذریعہ ہم اس بات کا اعلان اور اقرار کرتے ہیں کہ الله تعالی وہ واحد ذات ہے، جو بے عیب ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔
اسی طرح استغفار کے ذریعہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم گنہگار اور خطا کار بندے ہیں؛ اس لیے الله تعالی سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا﴿۳﴾
تو آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیجیے اور ان سے مغفرت طلب کیجیے۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے (۳)
جیسا پہلے بتلایا گیا کہ اس سورت میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مشن کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے، نیز اس بات کی بھی اشارہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رخصت اس دنیا سے قریب ہے؛ لہذا آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ کثرت سے الله تعالی کی تسبیح وتحمید بیان کریں اور استغفار کریں۔
حدیث شریف میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی اچھے کام سے فارغ ہو جائیں، تو کام کی تکمیل پر ہمیں چاہیئے کہ ہم الله تعالی کی حمد کریں، نیز استغفار بھی کریں؛ تاکہ الله تعالی ان کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائیں، جو کام کے دوران ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔
خلاصہ بات یہ ہے کہ اس سورت میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق ہے کہ جب وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب ہو جائے، تو وہ الله تعالی کی طرف متوجّہ ہو کر تسبیح وتحمید اور استغفار کرے۔
حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم مندرجہ ذیل ذکر پڑھتے تھے:
سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
حدیث شریف میں وارد ہے کہ الله پاک کا یہ ذکر (سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللهِ العَظِيم) قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بہت زیادہ وزن دار ہوگا۔
لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم روزانہ کچھ وقت نکال کر یہ ذکر اہتمام کے ساتھ کریں۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ بکثرت أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ پڑھتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نفل نماز کے اندر اپنے رکوع اور سجدہ میں سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغِفُرُ الله پڑھا کرتے تھے۔
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش خبری ہے اس شخص کے لئے، جو قیامت کے دن اپنے نامئہ اعمال میں کثرت استغفار پائے۔
اس حدیث شریف میں اس شخص کو خوش خبری دی گئی ہے، جو ہمیشہ توبہ کرتا ہے اور الله تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے۔
چنانچہ ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے اوپر نظر نہ کرے اور نہ اپنے نیک کاموں سے مطمئن ہو جائے؛ بلکہ وہ الله تعالی پر بھروسہ کرے اور الله تعالی کے سامنے اپنی بے بسی، عاجزی اور کمزوری کا اظہار کرے اور ہمیشہ الله تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی معافی مانگتا رہے۔