قیامت کا دن – بہت سے لوگوں کے لیے ندامت کا دن
قرآن مجید میں قیامت کے دن کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ نام یہ ہیں : “یومِ جزا (بدلہ کا دن) “، “یومِ جمع ( جمع ہونے کا دن”، “نقصان اور فائدے کا دن” (یعنی کافروں کے لیے نقصان اور مومنوں کے لیے فائدے کا دن )، اور “ملاقات کا دن” یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا دن )۔
جب ہم ان ناموں کا جائزہ لیتے ہیں ، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر نام اس حالت کی عکاسی کرتا ہے جس کا لوگ قیامت کے دن سامنا کریں گے ۔
قیامت کے دن کے ناموں میں ایک نام “یومِ ندامت” بھی ہے۔ یہ دن کافروں کے لیے انتہائی ندامت کا دن ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں : (اے محمد )(صلی اللہ علیہ وسلم)!) ان (کافروں) کو ندامت کے دن کے بارے میں آگاہ کردیجیے ،جب فیصلہ ہو جائے گا (یعنی انہیں جہنم کی آگ میں داخل کیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)۔ (سورہ مریم آیت 39)
اس سے یہ بات واضح ہے کہ قیامت کا دن کافروں کے لیے ناقابل تصور اور ناقابل فہم ندامت کا دن ہوگا۔
البتہ جس طرح یہ دن کفار کے لیے بڑی پشیمانی اور ندامت کا دن ہوگا، اسی طرح بعض مومنین کے لیے بھی یہ دن ندامت اور شرمندگی کا ہوگا۔ اہلِ ایمان کی ندامت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ(جنت میں داخل ہونے سے پہلے) اہلِ جنت کو صرف ان اوقات اور لمحات پر افسوس ہوگا جن میں انہوں نے (دنیوی زندگی میں ) اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا ہوگا ۔ (مجمع الزوائد 16746)
جب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ذکر الہی میں گزارے ہوئے وقت کے بدلے بے پناہ اجر و ثواب اور عظیم انعامات سے نوازیں گے ، تو دوسرے مومنین اس قیمتی وقت اور لمحہ پر غمگین اور نادم ہوں گے ، جو انہوں نے اللہ کو یاد کیے بغیر دنیا میں ضائع کیا تھا ۔
ذیل میں ایک فکر انگیز واقعہ پیش کیا جا رہا ہے جو ایمان اور زندگی کی عظیم قدر و قیمت اور نیک کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ عبداللہ بن وابصہ عبسی اپنے دادا سے درج ذیل واقعہ نقل کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ان کے دادا کے اسلام قبول کرنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں :
ایک موقع پر اسلام کے ابتدائی ایام میں جب ہم منیٰ میں اپنے خیمے میں تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ آپ اپنی سواری پر بیٹھے تھے اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے گفتگو کی اور ہمیں اسلام کی دعوت دی۔ بہرحال- اللہ کی قسم- ہم نے ان کی دعوت قبول نہیں کی ۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے لیے بھلائی مقدر نہیں تھی ۔ پہلے بھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنا تھا اور حج کے دنوں میں بھی ہم نے ان کو لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے سنا تھا۔ لیکن جب انہوں نے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اسلام کی دعوت دی تو ہم نے ان کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی ان کی بات قبول کی۔ ہمارے گروہ میں میسرہ بن مسروق عبسی نام کا ایک شخص تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور ان کی دعوت سننے کے بعد، انہوں نے اپنی قوم کو سمجھایا: میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں! اگر ہم اس شخص کے پیغام کو قبول کرتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہم اسے اپنے درمیان بسائیں اور اپنے درمیان ٹھہرائیں ، تو ہمارا عمل دانشمندانہ اور فائدہ مند ہوگا ۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ اس کا پیغام غالب ہوگا اور دور دور تک پھیلے گا۔
تاہم، اس کے قبیلے کے لوگوں نے کہا: ہمیں اس معاملہ سے الگ رکھو اور ہمیں کسی ایسی چیز میں شامل نہ کرو ، جس کا انتظام و انصرام ہماری طاقت سے باہر ہو۔ اس کے باوجود یہ دیکھ کر کہ اس نے کچھ میلان ظاہر کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میسرہ کے اسلام قبول کرنے کی امید پیدا ہوئی ۔ چناں چہ آپ نے ان سے مزید بات کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک کلمات اور پیغام کو سننے کے بعد، میسرہ نے جواب دیا: آپ کے کلمات کتنے اچھے ہیں اور پُرنور ہیں! میری خواہش ہے کہ میں آپ کی بات قبول کروں اور آپ کی مدد کروں لیکن میرے قبیلے نے میری مخالفت کی ہے اور آدمی ہمیشہ اپنے لوگوں کا محتاج رہتا ہے۔ اگر انسان کا اپنا قبیلہ اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہو ، تو اس کے لیے دوسروں سے مدد حاصل کرنے کا بھی زیادہ امکان نہیں رہتا ہے ۔ یہ جواب ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ موڑا اور چلے گئے اور قبیلہ بنو عباس بھی اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلے گئے۔ واپسی کے دوران میسرہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو، ہم فدک کا ایک چکر لگائیں ، کیوں کہ وہاں یہودی رہتے ہیں ۔ ہم ان سے دریافت کر یں گے کہ کیا انہیں اس شخص کے بارے میں کوئی علم ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے قبیلے والے راضی ہو گئے اور وہ سب فدک پہنچ گئے۔ فدک آکر یہودیوں کے سامنے اپنا سوال پیش کیا تو انہوں نے اپنے مقدس صحیفے تورات کا ایک حصہ نکالا اور آخری نبی کی تفصیل پڑھنے لگے ، جو ان کے صحیفے میں درج تھی۔ انہوں نے جو تفصیل پڑھی، وہ یہ تھی:
آخری نبی امّی(ناخواندہ )ہوں گے اور سرزمین عرب میں ظاہر ہوں گے۔ وہ اپنی سواری کے طور پر اونٹ کا استعمال کریں گے اور بطور خوراک روٹی کے چند ٹکڑے ان کے لیے کافی ہوں گے ۔ وہ نہ زیادہ لمبے ہوں گے اور نہ ہی بہت پستہ قد (بلکہ درمیانہ قد کے ہوں گے )۔ ان کے بال نہ گھنگریالے ہوں گے اور نہ سیدھے۔ ان کی آنکھیں سرخی مائل ہوں گی (یعنی ان کی آنکھوں کی سفیدی سرخی مائل ہوگی)۔ پھر یہودیوں نے کہا کہ جس شخص نے آپ کو اپنے دین کی دعوت دی ہے ، اگر ان کے اندر یہ اوصاف موجود ہیں، توآپ ان کی بات مان لیں اور ان کے دین کو قبول کر لیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ، تو ہم ان کی پیروی نہیں کریں گے ؛ کیوں کہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے بہت زیادہ حسد ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف مختلف مقامات پر جنگ بھی کریں گے۔ عربوں میں سے ہر شخص یا تو ان کی پیروی کرے گا یا ان سے لڑے گا۔ اس لیے تم یقینی طور پر ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ، جو ان کی پیروی کرتے ہیں۔ میسرہ نے جب یہ سنا ، تو اپنے قبیلے سے مخاطب ہو کر کہا: اے لوگو! اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں ۔ مگر ان کی قوم نے تاخیر کی اور کہا کہ جب ہم اگلے سال حج کے لیے واپس آئیں گے تو ہم ان سے ملیں گے اور اسلام قبول کریں گے۔
چناں چہ وہ اپنے وطن واپس آگئے۔ ان کے قبیلے کے دوسرے لوگوں نے ان کی باتیں قبول نہیں کی اور ان ان کی تجویز پر عمل نہیں کیا ۔ اس طرح کئی سال گزر گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ آخرکار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ واپس آئے ، تو میسرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ملاقات کی اور انہیں پہچان لیا۔ میسرہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جس دن آپ نے اپنی سواری ہمارے پاس روکی اور ہم سے بات کی، اس دن سے میری خواہش تھی کہ میں آپ کے پاس آؤں، اسلام قبول کروں اور آپ کی پیروی کروں۔ مگر ہمیشہ کچھ نہ کچھ پیش آتا رہا ، اور اس طرح سالہا سال گزر گئے ۔ یہی وجہ کہ میرے اسلام قبول کرنے میں ابھی تک تاخیر ہوئی ہے۔ جہاں تک میرے قبیلے والوں کا تعلق ہے ، جن سے آپ نے منیٰ میں خطاب کیا تھا وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے بتائیے کہ ان کا ٹھکانہ جنت میں ہے یا جہنم میں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ شخص جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ یہ سن کر میسرہ نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے جہنم سے بچایا۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا اور ایک متقی، پرہیز گار اور مخلص مسلمان بن گئے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کا بہت اعزاز و اکرام کیا۔ (حیات الصحابہ 1/114-116)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી