باغ محبت (انتیسویں قسط)

قیامت کا دن – بہت سے لوگوں کے لیے ندامت کا دن

قرآن مجید میں قیامت کے دن کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ نام یہ ہیں: یوم الجزاء (بدلہ کا دن)، یوم الجمع (جمع ہونے کا دن)، یوم التغابن (ہار جیت کا دن – مسلمانوں کے لیے فتح ہوگی اور کافروں کے لیے ناکامی اور خسارہ ہوگا) اور یوم التلاق (الله تعالیٰ سے ملاقات کا دن)۔

جب ہم ان ناموں پر غور کریں اور ان کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قیامت کے ناموں میں سے ہر نام اپنی حالت پر دلالت کرتا ہے کہ اس دن لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائےگا۔

قیامت کے دن کے ناموں میں ایک نام “یوم الحسرۃ” (حسرت وندامت کا دن) بھی ہے، تو کافروں کے لیے وہ دن انتہائی حسرت وندامت کا دن ہوگا؛ جیسا کہ الله تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں:

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ

(اے محمد صلی الله علیہ وسلم!) ان کو (کافروں کو) حسرت وندامت کے دن کے بارے میں آگاہ کر دیجیے؛ جب فیصلہ ہو جائےگا (یعنی جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا کہ کافر لوگ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)۔ (سورہ مریم، آیت: ۳۹)

اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کا دن کافروں کے لیے بے حد حسرت اور بے انتہاء ندامت کا دن ہوگا۔

البتہ جس طرح کافروں کے لیے وہ دن بڑی حسرت وندامت کا دن ہوگا؛ اسی طرح بعض ایمان والوں کے لیے بھی وہ دن ایک اعتبار سے ندامت اور حسرت کا دن ہوگا۔

اہلِ جنت کی حسرت وندامت

ایمان والوں کی حسرت وندامت کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (جنت میں جانے سے پہلے) اہلِ جنّت کو صرف ان اوقات اور لمحات پر حسرت وندامت ہوگی، جن میں انہوں نے (دنیوی زندگی میں) الله تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا۔ (مجمع الزوائد، الرقم: ۱۶۷۴۶)

جب الله تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ذکر الہی میں گزارے ہوئے وقت کے بدلے بے پناہ اجر وثواب اور ‏عظیم انعامات سے نوازیں گے، تو دوسرے مومنین اس قیمتی وقت اور لمحہ پر غمگین اور نادم ہوں گے ‏کہ کیوں انہوں نے بھی اپنی دنیوی زندگی میں الله تعالی کو یاد نہیں کیا اور ان کا ذکر نہیں کیا۔

میسرہ بن مسروق عبسی کا واقعہ

ذیل میں ایک واقعہ پیش کیا جا رہا ہے، جو ایمان اور زندگی کی قدر وقیمت اور نیک کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔

عبد الله بن وابصہ عبسی اپنے دادا سے درج ذیل واقعہ نقل کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ان کے دادا کے اسلام قبول کرنے سے پہلے پیش آیا تھا۔

وہ فرماتے ہیں:

ایک موقع پر اسلام کے ابتدائی ایام میں جب ہم منیٰ میں اپنے خیمے میں تھے، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ آپ اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ آپ کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے گفتگو کی اور ہمیں اسلام کی دعوت دی؛ لیکن -الله کی قسم- ہم نے ان کی دعوت قبول نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارے لیے خیر وبھلائی مقدر نہیں تھی۔

اس سے پہلے ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں سنا تھا اور موسمِ حج میں بھی ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے سنا تھا؛ لیکن جب وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور ہمیں اسلام کی دعوت دی، تو ہم نے ان کی بات قبول نہیں کی۔

ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق عبسی نام ایک شخص تھا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا پیغام اور ان کی دعوت سننے کے بعد انہوں نے اپنی قوم سے کہا: میں الله کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم اس آدمی کے پیغام کو قبول کریں گے اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے، یہاں تک کہ ہم اسے اپنے ساتھ ٹھہرائیں، تو یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا۔ میں الله کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ دنیا میں اس کا پیغام غالب ہو کر رہےگا اور دور دور تک پھیلےگا۔

تاہم، اس کے قبیلے کے لوگوں نے ان سے کہا: ہمیں چھوڑ دو اور ہمیں کسی ایسی چیز میں شامل نہ کرو، جس کو برداشت کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔

میسرہ کی باتیں سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم کو اس کے ایمان لانے کی کچھ اُمید ہو گئی؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے میسرہ سے مزید بات کی۔

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کلمات اور پیغام کو سننے کے بعد میسرہ نے کہا: آپ کا کلام بہت ہی اچھا ہے اور بہت ہی نورانی ہے! میری خواہش ہے کہ میں آپ کی بات قبول کروں اور آپ کی مدد کروں؛ لیکن میری قوم میری مخالفت کر رہی ہے اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کا محتاج رہتا ہے۔ اگر آدمی کی قوم اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کے لیے دوسروں سے مدد حاصل کرنے کا بھی زیادہ امکان نہیں ہے۔ یہ سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور قبیلہ بنو عبس بھی اپنے علاقہ واپس چلے گئے۔

واپسی کے دوران میسرہ نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ چلو، ہم فدک چلیں؛ کیوں کہ وہاں یہودی لوگ رہتے ہیں۔ ہم ان سے دریافت کریں گے کہ کیا انہیں اس آدمی کے بارے میں کوئی علم ہے، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔

اس کے قبیلے والے راضی ہو گئے اور وہ سب فدک پہنچ گئے۔ فدک آ کر انہوں نے یہودیوں کے سامنے اپنا سوال پیش کیا، تو یہودیوں نے اپنی کتاب، تورات کا ایک حصہ نکالا اور اس میں سے آخری نبی کے بارے میں پڑھنے لگے۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا:

آخری نبی اُمّی (ان پڑھ) ہوں گے اور عربی ہوں گے۔ وہ سواری کے طور پر اونٹ استعمال کریں گے اور روٹی کے چند ٹکڑے پر گزارہ کریں گے۔ ان کا قد زیادہ لمبا نہیں ہوگا اور نہ بہت چھوٹا؛ (بلکہ وہ درمیانہ قد کے ہوں گے)۔ ان کے بال نہ گھنگریالے ہوں گے اور نہ بالکل سیدھے۔ ان کی آنکھیں سرخی مائل ہوں گی (یعنی ان کی آنکھوں کی سفیدی سرخی مائل ہوگی)۔

اتنا پڑھنے کے بعد یہودیوں نے کہا کہ جس آدمی نے تمہیں دین کی دعوت دی ہے، اگر وہ ایسا ہی ہے، تو تم اس کی بات مان لو اور اس کے دین کو قبول کر لو۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، تو ہم حسد کی وجہ سے اس کی پیروی نہیں کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف مختلف مقامات پر جنگ بھی کریں گے۔ عربوں میں سے ہر آدمی یا تو اس کی پیروی کرےگا یا اس سے لڑےگا؛ لہذا تم ان کا اتباع کرنے والوں میں سے بن جاؤ۔

میسرہ نے جب یہ سنا، تو اپنے قبیلے والوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے میری قوم! اب بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ کے سچے نبی ہیں؛ مگر ان کی قوم نے تاخیر کی اور کہا کہ جب ہم اگلے سال حج کے لیے جائیں گے، تو ہم ان سے ملیں گے اور اسلام قبول کریں گے۔

چناں چہ وہ سب اپنے علاقہ کو واپس چلے گئے۔ اس طرح کئی سال گزر گئے؛ یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ واپس آئے، تو میسرہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو پہچان لیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی ۔

میسرہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول الله! جس دن آپ نے اپنی سواری ہمارے پاس روکی اور ہم سے بات کی، اس دن سے میری خواہش تھی کہ میں آپ کے پاس آؤں، اسلام قبول کروں اور آپ کی پیروی کروں؛ مگر ہمیشہ کچھ نہ کچھ پیش آتا رہا اور اس طرح کئی سال گزر گئے۔ لہذا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میرے اسلام قبول کرنے میں ابھی تک تاخیر ہوئی ہے۔

جہاں تک میرے قبیلے والوں کی بات ہے، جن کو آپ نے منیٰ میں دینِ اسلام کی طرف دعوت دی ہے، تو وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔ اے الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم! مجھے بتائیے کہ ان کا ٹھکانہ جنت میں ہے یا جہنم میں؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ آدمی جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے، تو وہ جہنم میں جائےگا۔ یہ سن کر میسرہ نے کہا کہ تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں، جس نے مجھے جہنم سے بچا لیا۔

اس کے بعد میسرہ نے اسلام قبول کیا اور ایک اچھے اور مخلص مسلمان بن گئے؛ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے یہاں میسرہ کا بڑا درجہ تھا (یعنی حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کا بہت اعزاز واکرام کیا)۔ (حیات الصحابہ ۱/ ۱۱۴-۱۱۶)

Check Also

علامات قیامت – تیرہویں قسط‎ ‎

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کیسے ہوئی؟ انسان کی تخلیق کے سلسلے میں الله …