مسواک کی سنتیں اور آداب

۲) مسواک پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور چھنگلی (سب سے چھوٹی انگلی) کو مسواک کے نیچے اور دیگر انگلیوں کو مسواک کے اوپر رکھا جائے۔ [۲]

۳) مسواک کو دائیں ہاتھ سے پکڑنا اور دانتو ں کو دائیں طرف سے صاف کرنا۔ [۳]

(۴) دانتوں پر عرضا (چوڑائی میں) اور زبان پر طولا (لمبائی میں) مسواک کرنا۔ [۵]

عن أبي موسى رضي الله عنه قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يستاك وهو واضع طرف السواك على لسانه يستن إلى فوق فوصف حماد كأنه يرفع سواكه قال حماد ووصفه لنا غيلان قال كان يستن طولا (مسند أحمد رقم ۱۹۷۳۷)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ مسواک کر رہے تھے، تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنی زبان مبارک پر طولاً مسواک کر رہے ہیں۔

عن عطاء بن أبى رباح رحمه الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا شربتم فاشربوا مصا وإذا استكتم فاستاكوا عرضا (تلخيص الحبير ۱/۹٦)[٦]

حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب تم پیئو، تو گھونٹ گھونٹ پیئو (یعنی ایک گھونٹ میں سب نہ پیو) اور جب تم مسواک کرو، تو عرضًا(چوڑائی میں) مسواک کرو۔

(۴) مسواک استعمال کرنے کے بعد اس کو دھوو، پھر اس کو کھڑی کر کے سیدھی رکھو۔

(۵) اگر مسواک نہ ہو، تو اس کی جگہ انگلی کا استعمال کرنا۔ [۷]

عن أنس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجزئ من السواك الأصابع (تلخيص الحبير ۱/۱٠٤)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “انگلیوں کا استعمال کافی ہیں مسواک کی جگہ میں اگر مسواک نہ ہو(یعنی اگر مسواک نہ ہو، تو مسواک کا متبادل انگلیاں ہیں)”۔

(۶) مسواک ایک بالشت سے لمبی نہ ہو اور انگلی کے بقدر موٹی ہو۔ [۸]

(۷) ہر اس لکڑی سے مسواک کیا جا سکتا ہے، جو منھ صاف کرنے میں مفید ہو اور نقصان دہ یا زہر آلود نہ ہو۔ بہترین مسواک پیلوے کے درخت کی لکڑی ہے، پھر زیتون کے درخت کی لکڑی۔[۹]

عن معاذ بن جبل قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول نعم السواك الزيتون من شجرة مباركة تطيب الفم وتذهب بالحفر وهو سواكي وسواك الأنبياء قبلي (مجمع الزوائد رقم ۲۵۷٦)[۱۰]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا” زیتون کی مسواک (جو کہ مبارک درخت میں سے ہے) کتنی اچھی مسواک ہے، منھ کو صاف کرتی ہے، دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریوں کو دور کرتی ہے (اور دانتوں سے زردی کو دور کرتی ہے)۔ یہ میری مسواک ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء  علیہم السلام کی بھی مسواک ہے۔”

عن ابن مسعود رضي الله عنه كنت أجتني لرسول الله صلى الله عليه وسلم سواكا من أراك (إعلاء السنن ۱/۷۵، تلخيص الحبير ۱/۹۵)[۱۱]

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیلو کے درخت سے ٹہنیاں توڑتا تھا (مسواک کے لیے)۔

مسواک استعمال کرنے کے مواقع:

(۱) سو کر اٹھنے کے بعد۔

عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يرقد من ليل ولا نهار فيستيقظ إلا تسوك قبل أن يتوضأ (سنن أبي داود رقم٥٧)[۱۲]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات و دن میں جب بھی سو کر اٹھتے، تو وضو سے پہلے مسواک کرتے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا اور وضو کے وقت مسواک کرنا دونوں الگ الگ سنتیں ہیں، لہذا اگر کوئی اٹھنے کے بعد وضو کرنے والا نہیں ہے یا عورت حالتِ حیض میں ہو، تو اٹھنے کے بعد ان کو بھی مسواک کرنا چاہیئے۔ البتہ اگر کوئی اٹھنے کے بعد فوراً وضو کر لے اور اس وضو کے دوران مسواک بھی کرے، تو اس مسواک سے دونوں سنتیں ادا ہو جائیں گی۔ [۱۳]

(۲) گھر میں داخل ہونے کے وقت۔

عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل بيته بدأ بالسواك (صحيح مسلم رقم٢٥٣)

حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اپنے گھر میں داخل ہوتے، تو پہلے مسواک کرتے۔

(۳) قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے۔ [۱۴]

عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال إن أفواهكم طرق للقرآن فطيبوها بالسواك (سنن ابن ماجة رقم٢٩١)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: بیشک تمہارے منھ  قرآنِ کریم کے لیے راستے ہیں(تمہارے منھ سے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے) لہذا اپنے منھ کو مسواک سے صاف کرو۔

عن علي رضي الله عنه أنه أمر بالسواك وقال قال النبي صلى الله عليه وسلم إن العبد إذا تسوك ثم قام يصلي قام الملك خلفه فتسمع لقراءته فيدنو منه أو كلمة نحوها حتى يضع فاه على فيه فما يخرج من فيه شيء من القرآن إلا صار في جوف الملك فطهروا أفواهكم للقرآن (مسند البزار رقم  ٥٥٠)[۱۵]

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ مسواک کر کے نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے، تو ایک فرشتہ اس کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی تلاوت کو (یعنی قرآن پاک کی تلاوت کو) غور سے سنتا ہے پھر وہ فرشتہ اس کے قریب آتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اپنا منھ اس کے منھ پر رکھ دیتا ہے۔ قرآن مجید کا جو حصہ بھی وہ تلاوت کرتا ہے، وہ فرشتے کے پیٹ میں محفوظ ہو جاتا ہے (اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے یہاں محفوظ ہو جاتا ہے) اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے پہلے اپنا منھ ضرور صاف کیا کریں۔

(۴) وضو کے وقت مسواک سے منھ صاف کرنا۔ [۱]

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل وضوء (صحيح البخاري تعليقا ۱/۲۵۹)

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور انھیں حکم دیتا(اور ان پر واجب کرتا) کہ وہ ہر وضو کے وقت مسواک کرے (لیکن اب ہر وضو کے وقت مسواک کرنا واجب نہیں ہے؛ بلکہ سنت مؤکدہ ہے)۔”

(۵) دانتوں کے رنگ کے بدل جانے یا منھ سے بدبو خارج ہونے کے وقت۔[۱٦]

عن جعفر بن أبي طالب رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ما لي أراكم تدخلون علي قلحا استاكوا ولولا أن أشق على أمتي لأمرتهم أن يستاكوا عند كل صلاة (كتاب الآثار رقم ٤١)

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے کہا: کیا بات ہے کہ تم لوگ میرے پاس اس حال میں آتے ہو کہ تمہارے دانتوں کے رنگ زرد ہوتے ہیں؟ (اپنے دانتوں کو صاف کرنے کے لیے)مسواک کیا کرو ۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مزید فرمایا) ”  اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں ضرور انہیں حکم دیتا (اور ان پر واجب کرتا ) کہ وہ ہر نماز کے وقت مسواک کرے(لیکن اب ہر نمازکے وقت مسواک کرنا واجب نہیں ہے؛ بلکہ سنت مؤکدہ ہے)۔”

عن عبد الله بن بشر المازني رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قصوا أظافيركم وادفنوا قلاماتكم ونقوا براجمكم ونظفوا لثاتكم من الطعام وتسننوا ولا تدخلوا علي قخرا بخرا (نوادر الأصول تحت الأصل التاسع والعشرين في باب النظافة)[۱۷]

حضرت عبد اللہ بن بِشر مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” ناخن تراشو، ناخن کا تراشہ گاڑ دو، بدن کے جوڑوں کو (جہاں میل جمع ہوتا ہے) اچھی طرح صاف کرو، کھانے وغیرہ کے ذرّات سے مسوڑھوں کو صاف کرو، مسواک کرو اور میرے پاس اس حال میں مت آؤ کہ تمہارے دانت زرد ہوں اور تمہارے منھ سے بدبو آرہی ہو۔

(۶) کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال – إن كان قاله – لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك مع الوضوء وقال أبو هريرة لقد كنت أستن قبل أن أنام وبعد ما أستيقظ وقبل ما آكل وبعد ما آكل حين سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما قال (مسند أحمد ٩١٩٤)

حضرت ابو  ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  اوربے شک آپ نے فرمایا تھا:  اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا ،تو میں ضرور انہیں حکم دیتا (اور ان پر واجب کرتا ) کہ وہ ہر وضو کے وقت مسواک کرے(لیکن اب ہر وضو کے وقت  مسواک کرنا واجب نہیں ہے ؛ بلکہ سنت مؤکدہ ہے)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایاکہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے مسواک کی تائید کی وجہ سے میری عادت ہے کہ  میں سونے سے پہلے، نیند سے بیدار ہونے کے بعد، کھانےسے پہلے اور کھانے کے بعد مسواک کرتا ہوں ۔

(۷) حالتِ نزع میں (یعنی موت کے آثار کے وقت)۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت دخل عبد الرحمن بن أبي بكر ومعه سواك يستن به فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له أعطني هذا السواك يا عبد الرحمن فأعطانيه فقصمته (وفي رواية وطيبته) ثم مضغته فأعطيته رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستن به وهو مستند إلى صدري (صحبح البخاري رقم ٨٩٠)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرا بھائی حضرت عبد الرحمنٰ رضی اللہ عنہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب) کمرے میں داخل ہوئے، جب کہ ان کے پاس ایک مسواک تھی، جس سے وہ اپنے دانتوں کو صاف کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اس مسواک پر پڑی (لیکن بوجہ ضعف مسواک طلب نہ کر سکے۔ میں سمجھ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے کہ اس وقت مسواک استعمال کریں)؛ چناں چہ میں نے اپنے بھائی سے کہا: مجھے یہ مسواک دو، میں نے وہ مسواک لیا، اس کے اوپر والے حصہ کو توڑ کر الگ کیا پھر (اس کو صاف کیا پھر) اس کو چبا کر نرم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا، آپ نے اس سے مسواک کیا دراں حالیکہ آپ میرے سینہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

(۸) اگر کوئی شخص پہلے سے باوضو تھا اور نماز کا وقت ہو گیا، تو اس کے لیے مستحب ہے کہ منھ کی بدبو وغیرہ دور کرنے کے لیے نماز سے پہلے مسواک کرلے۔ اسی طرح کسی مجلس وغیرہ میں شرکت سے قبل مسواک کرنا مستحب ہے۔ [۱۸]

(۹) اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا پانی کی کمی کی وجہ سے تیمم کرے، تو تیمم میں مسواک کے ساتھ منھ صاف کرے اور پھر نماز پڑھے۔

مسواک کے فضائل

عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فضل الصلاة التي يستاك لها على الصلاة التي لا يستاك لها سبعين ضعفا (المستدرك للحاكم رقم ۵۱۵)[۲۰]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جو نماز مسواک کر کے ادا کی جائے اس کی فضیلت اس نماز سے ستر(۷۰) گنا زیادہ ہے جو مسواک کے بغیر ادا کی جائے”۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم السواك مطهرة للفم مرضاة للرب (صحيح البخاري تعليقا ۱/۲۵۹)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مسواک منھ کی صفائی اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ ہے”۔

عن أبي أيوب رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أربع من سنن المرسلين الحياء والتعطر والسواك والنكاح (سنن الترمذي رقم ۱٠۸٠)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “چار چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں : (۱) حیا (زندگی کے تمام شعبوں میں حیا اختیار کرنا)، (۲) خوشبو استعمال کرنا، (۳) مسواک کرنا، (۴) نکاح کرنا۔

عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عليكم بالسواك فإنه مطهرة للفم مرضاة للرب مفرحة للملائكة يزيد في الحسنات وهو من السنة ويجلو البصر ويذهب الحفر ويشد اللثة ويذهب البلغم ويطيب الفم ورواه غيره وزاد فيه: ويصلح المعدة (شعب الإيمان رقم ۲۵۲۱)[۲۱]

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “مسواک کیا کرو؛ اس لیے کہ یہ منھ کی صفائی، اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور فرشتوں کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ (مسواک) نیکیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کا استعمال سنت ہے۔ یہ نگاہ تیز کرتی ہے، دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریوں کو دور کرتی ہے۔ اس سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ بلغم دور ہوتا ہے اور منھ صاف ہوتا ہے(دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ) مسواک سے معدہ درست ہوتا ہے، ہاضمہ کی قوت بڑھتی ہے۔


[۱] ( والسواك ) سنة مؤكدة كما في الجوهرة عند المضمضة وقيل قبلها وهو للوضوء عندنا إلا إذا نسيه فيندب للصلاة

قال الشامي: قوله ( عند المضمضة ) قال في البحر وعليه الأكثر وهو الأولى لأنه أكمل في الإنقاء. قوله ( وهو للوضوء عندنا ) أي سنة للوضوء. (رد المحتار ۱/۱۱۳)

[۲] ويستحب إمساكه باليد اليمنى والسنة في كيفية أخذه أن تجعل الخنصر من يمينك أسفل السواك تحته والبنصر والوسطى والسبابة فوقه واجعل الإبهام أسفل رأسه تحته كما رواه ابن مسعود (البحر الرائق ۱/۲۱)

[۳] (قوله : وندب إمساكه بيمناه) كذا في البحر والنهر، قال في الدرر: لأنه المنقول المتوارث اهـ. وظاهره أنه منقول عن النبي صلى الله عليه وسلم لكن قال محشيه العلامة نوح أفندي: أقول: دعوى النقل تحتاج إلى نقل، ولم يوجد. غاية ما يقال أن السواك إن كان من باب التطهير استحب باليمين كالمضمضة، وإن كان من باب إزالة الأذى فباليسرى والظاهر الثاني كما روي عن مالك. واستدل للأول بما ورد في بعض طرق حديث عائشة أنه صلى الله عليه وسلم كان يعجبه التيامن في ترجله وتنعله وطهوره وسواكه ورد بأن المراد البداءة بالجانب الأيمن من الفم اهـ ملخصا. وفي البحر والنهر والسنة في كيفية أخذه أن يجعل الخنصر أسفله والإبهام أسفل رأسه وباقي الأصابع فوقه كما رواه ابن مسعود (شامي ۱/۱۱٤)

[۵] قال الشامي : قوله ( ويستاك عرضا لا طولا ) أي لأنه يجرح لحم الأسنان وقال الغزنوي طولا وعرضا والأكثر على الأول بحر لكن وفق في الحلية بأنه يستاك عرضا في الأسنان وطولا في اللسان جمعا بين الأحاديث ثم نقل عن الغزنوي أنه يستاك بالمداراة خارج الأسنان وداخلها أعلاها وأسفلها ورؤوس الأضراس وبين كل سنين (رد المحتار ۱/۱۱٤)

[٦] وفيه محمد بن خالد القرشي قال ابن القطان لا يعرف. قلت: وثقه ابن معين وابن حبان ورواه البغوي والعقيلي وابن عدي وابن منده والطبراني وابن قانع والبيهقي من حديث سعيد بن المسيب عن بهز بلفظ: كان النبي صلى الله عليه وسلم يستاك عرضا الحديث وفي إسناده ثبيت بن كثير وهو ضعيف واليمان بن عدي وهو أضعف منه وذكر أبو نعيم في الصحابة ما يدل على أن هذا الحديث عن سعيد بن المسيب عن بهز بن حكيم بن معاوية القشيري وعلى هذا فهو منقطع فهو من رواية الأكابر عن الأصاغر وحكى ابن منده مما يؤيد ذلك أن مخيس بن تميم رواه عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده ورواه البيهقي والعقيلي أيضا من حديث ربيعة بن أكتم وإسناده ضعيف جدا وقد اختلف فيه على يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب فرواه ثبيت بن كثير عنه فقال بهز ورواه علي بن ربيعة القرشي عنه فقال ربيعة بن أكتم قال ابن عبد البر ربيعة قتل بخيبر فلم يدركه سعيد وقال في التمهيد لا يصحان من جهة الإسناد ورواه أبو نعيم في كتاب السواك من حديث عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاك عرضا ولا يستاك طولا وفي إسناده عبد الله بن حكيم وهو متروك. (تلخيص الحبير ۱/۹٦)

[۷] ومنها حديث “يجزي من السواك الأصابع” رواه ابن عدي والدارقطني والبيهقي من حديث عبد الله بن المثنى عن النضر بن أنس عن أنس وفي إسناده نظر. وقال الضياء المقدسي لا أرى بسنده بأسا. وقال البيهقي المحفوظ عن ابن المثنى عن بعض أهل بيته عن أنس نحوه. ورواه أيضا من طريق ابن المثنى عن ثمامة عن أنس ورواه أبو نعيم والطبراني وابن عدي من حديث عائشة وفيه المثنى بن الصباح ورواه أبو نعيم من حديث كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف عن أبيه عن جده وكثير ضعفوه.

وأصح من ذلك ما رواه أحمد في مسنده من حديث علي بن أبي طالب أنه دعا بكوز من ماء فغسل وجهه وكفيه ثلاثا وتمضمض فأدخل بعض أصابعه في فيه الحديث وفي آخره هذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم. وروى أبو عبيد في كتاب الطهور عن عثمان أنه كان إذا توضأ يسوك فاه بإصبعه.وروى الطبراني في الأوسط من حديث عائشة قلت: يا رسول الله الرجل يذهب فوه أيستاك؟ قال: نعم, قلت: كيف يصنع؟ قال: يدخل أصبعه في فيه رواه من طريق الوليد بن مسلم ثنا عيسى بن عبد الله الأنصاري عن عطاء عنها وقال لا يروى إلا بهذا الإسناد. قلت: عيسى ضعفه ابن حبان وذكر له ابن عدي هذا الحديث من مناكيره (التلخيص الحبير ۱/۱٠٤)

وعند فقده أو فقد أسنانه تقوم الخرقة الخشنة أو الأصبع مقامه

قال الشامي : قوله ( أو الأصبع ) قال في الحلية ثم بأي أصبع استاك لا بأس به والأفضل أن يستاك بالسبابتين يبدأ بالسبابة اليسرى ثم باليمنى وإن شاء استاك بإبهامه اليمنى والسبابة اليمنى يبدأ بالإبهام من الجانب الأيمن فوق وتحت ثم بالسبابة من الأيسر كذلك (رد المحتار ۱/۱۱۵)

[۸]  كونه لينا مستويا بلا عقد في غلظ الخنصر وطول شبر

قال الشامي : قوله ( في غلظ الخنصر ) كذا في المعراج وفي الفتح الأصبع قوله ( وطول شبر ) الظاهر أنه في ابتداء استعماله فلا يضر نقصه بعد ذلك بالقطع منه لتسويته تأمل وهل المراد شبر المستعمل أو المعتاد الظاهر الثاني لأنه محمل الإطلاق غالبا (رد المحتار ۱/۱۱٤)

وليكن رطبا في غلظ الخنصر وطول الشبر (الفتاوى الهندية ۱/۷)

[۹] ويكره بمؤذ ويحرم بذي سم

قال الشامي : قوله ( ويكره بمؤذ ) قال في الحلية وذكر غير واحد من العلماء كراهته بقضبان الرمان والريحان اهـ وفي شرح الهداية للعيني روى الحارث في مسنده عن ضمير بن حبيب قال نهى رسول لله عن السواك بعود الريحان وقال إنه يحرك عرق الجذام وفي النهر ويستاك بكل عود إلا الرمان والقصب وأفضله الأراك ثم الزيتون روى الطبراني نعم السواك الزيتون من شجرة مباركة وهو سواكي وسواك الأنبياء من قبلي (رد المحتار ۱/۱۱۵)

[۱۰] قال الهيثمي: رواه الطبراني في الأوسط وفيه معلل بن محمد ولم أجد من ذكره

[۱۱] قال الحافظ في تلخيص: أخرجه ابن حبان والطبراني أيضا وصححه الضياء في أحكامه ورواه أحمد موقوفا على ابن مسعود أنه كان يجتني سواكا من أراك الحديث ولم يقل فيه أنه كان يجتنيه للنبي صلى الله عليه وسلم

[۱۲] سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة ١/٢١٥) ، فالحديث حسن عنده.

[۱۳] باب السواك لمن قام بالليل يعنى يستحب لمن قام بالليل سواء كان قيامه للصلوة أو لغيرها أن يستاك لأن النوم مظنة تغير الرائحة…وفي الحديث دليل على أنه صلى الله عليه وسلم يتسوك قبل أن يتوضأ وأيضا يدل على أنه صلى الله عليه وسلم يتسوك بعد الاستيقاظ من النوم سواء أراد التهجد أم لا (بذل المجهود١/٣٥)

[۱٤] كما يندب لاصفرار سن وتغير رائحة وقراءة قرآن

قال الشامي : … قال في إمداد الفتاح وليس السواك من خصائص الوضوء فإنه يستحب في حالات منها تغير الفم والقيام من النوم وإلى الصلاة ودخول البيت والاجتماع بالناس وقراءة القرآن لقول أبي حنيفة إن السواك من سنن الدين فتستوي فيه الأحوال كلها اه وفي القهستاني ولا يختص بالوضوء كما قيل بل سنة على حدة على ما في ظاهر الرواية  (رد المحتار١/١١٤)

[۱۵] وقال الهيثمي في مجمع الزوائد رقم ۲۵٦٤رواه البزار ورجاله ثقات وروى ابن ماجه بعضه إلا أنه موقوف وهذا مرفوع

[۱٦]كما يندب لاصفرار سن وتغير رائحة وقراءة قرآن

[۱۷] قال صاحب نوادر الأصول: وقوله لا تدخلوا علي قخرا بخرا المحفوظ عندي قلحا وقحلا والأقلح الذي اصفرت أسنانه حتى بخرت من باطنها ولا نعرف القخر والبخر إلا الذي نجد له رائحة منكرة يقال رجل أبخر ورجال بخر

[۱۸] قال في إمداد الفتاح: وليس السواك من خصائص الوضوء، فإنه يستحب في حالات منها: تغير الفم، والقيام من النوم وإلى الصلاة، ودخول البيت، والاجتماع بالناس، وقراءة القرآن؛ لقول أبي حنيفة: إن السواك من سنن الدين فتستوي فيه الأحوال كلها. اهـ. وفي القهستاني: ولا يختص بالوضوء كما قيل، بل سنة على حدة على ما في ظاهر الرواية. وفي حاشية الهداية أنه مستحب في جميع الأوقات، ويؤكد استحبابه عند قصد التوضؤ فيسن أو يستحب عند كل صلاة اهـ وممن صرح باستحبابه عند صلاة أيضا الحلبي في شرح المنية الصغير، وفي هدية ابن عماد أيضا، وفي التتارخانية عن التتمة: ويستحب السواك عندنا عند كل صلاة ووضوء وكل ما يغير الفم وعند اليقظة. اهـ. فاغتنم هذا التحرير الفريد (شامي١/١١٤)

«صلاة بسواك أفضل من سبعين صلاة بغير سواك» أي أنها تحصل بالإتيان به عند الوضوء. وعند الشافعي لا تحصل إلا بالإتيان به عند الصلاة. فعندنا كل صلاة صلاها بذلك الوضوء لها هذه الفضيلة خلافا له، ولا يلزم من هذا نفي استحبابه عندنا لكل صلاة أيضا حتى يحصل التنافي. وكيف لا يستحب للصلاة التي هي مناجاة الرب تعالى مع أنه يستحب للاجتماع بالناس. (شامي ۱/۱۱۳)

[۱۹] (و) ندب إمساكه (بيمناه) وكونه لينا، مستويا بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر. ويستاك عرضا لا طولا، ولا مضطجعا؛ فإنه يورث كبر الطحال، ولا يقبضه؛ فإنه يورث الباسور، ولا يمصه؛ فإنه يورث العمى، ثم يغسله، وإلا فيستاك الشيطان به، ولا يزاد على الشبر، وإلا فالشيطان يركب عليه، ولا يضعه بل ينصبه، وإلا فخطر الجنون قهستاني. ويكره بمؤذ، ويحرم بذي سم (الدر المختار ۱/۱۱۵)

[۲۰] هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه

قال الذهبي في التلخيص : على شرط مسلم

[۲۱] قال البيهقي : تفرد به الخليل بن مرة وليس بالقوي في الحديث

قال ابن الملقن في البدر المنير (۲/۲۳) : هو كما قال فقد ضعفه يحيى بن معين والنسائي وقال البخاري منكر الحديث وقال ابن حبان منكر الحديث عن المشاهير كثير الرواية عن المجاهيل وقال أبو زرعة شيخ صالح وقال أبو حاتم ليس بالقوي وقال ابن عدي ليس بمتروك

قال السيوطي رحمه الله كتصانيف البيهقي فقد التزم أن لا يخرج فيها حديثا يعلمه موضوعا . انتهى. (تدريب الراوي ۱/۲۳۷ )

وقد اعتمد السيوطي وابن عراق رحمهما الله على قول البيهقي هذا. (اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ۱/۱۲)

قال الشيخ محمد عوامة:  والشرط الرابع: أن يكون لهذا الحديث الضعيف أصل يندرج تحته، وهو أمر ملاحظ جدا  في واقع علمائنا رحمهم الله، فهم -كما نبهت إليه-يروون هذا الحديث الضعيف مع جملة أحاديث تشهد له، إما صحيحة بذاتها فتعضد هذا الضعيف، وإما ضعيفة أيضاً فتتعاضد مع بعضها،  وقد لاحظتُ هذا الامر كثيرًا وأنا أستقرئ هذا الاستقراء من الكتب التي نقلت عنها،  فوجدته والحمد لله متوفراً مستوفى … (حكم العمل بالحديث الضعيف صـ ۱٠٤-۱٠٦)

Check Also

تعزیت کی سنتیں اور آداب – ۲

(۱) تعزیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص کے قریبی عزیز یا رشتہ …