
غسل کرنے کا مسنون طریقہ
(۱) غسل کے دوران قبلہ کا استقبال نہ کرنا (قبلہ کی طرف منھ نہ کرنا )۔[1]
(۲) ایسی جگہ غسل کرنا، جہاں کسی کی نظر نہ پڑے۔ بہتر یہ ہے کہ غسل کے وقت ستر کے حصّہ کو ڈھانپ لیا جائے۔ البتہ اگر کوئی ایسی جگہ غسل کر رہا ہو، جو ہر طرف سے بند ہو، جیسے کہ غسل خانہ میں غسل کر رہا ہو، تو ستر کے حصّے کو ڈھانپے بغیر بھی غسل کرنا جائز ہے۔See 1
عن يعلى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يغتسل بالبراز بلا إزار فصعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال صلى الله عليه وسلم إن الله عز وجل حيي ستير يحب الحياء والستر فإذا اغتسل أحدكم فليستتر (سنن أبي داود، الرقم: ٤٠۱۲)[2]
حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھلی جگہ میں بغیر تہبند کے نہاتے ہوئے دیکھا۔ (یعنی اس کے ستر کا حصہ کھلا ہوا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا، “بے شک اللہ تعالیٰ بڑے حیادار ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ حیا میں اعلیٰ درجہ کا معاملہ کرتے ہیں) ، بڑے پردہ پوش ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور اپنے بندوں کے لیے) حیا اور پردہ پوشی (بیت الخلا اور غسل کے وقت) کو پسند فرماتے ہیں؛ لہذا جب تم میں سے کوئی غسل کرے، تو چھپ کر کرے۔”
(۳) غسل کے لیے بالٹی کا استعمال کرنا بہتر ہے۔ [3]
(۴) اگر کوئی فوارے سے غسل کر رہا ہو، تو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھے کہ پانی ضائع نہ ہو۔ صابن لگانے یا غیر ضروری بال صاف کرنے کے دوران پانی کھلا نہ چھوڑے۔ اس لیے کہ یہ (پانی کھلا چھوڑنا) سراسر اسراف ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔See 1
(۵) بیٹھ کر غسل کرنا افضل ہے۔[4]
(۶) غسل کے شروع میں دونوں ہاتھوں کو گٹوں سمیت دھونا۔ [5]
عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه (صحيح البخاري، الرقم: ۲٤۸)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ”جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسلِ جنابت فرماتے، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ کو دھوتے۔“
(۷) بائیں ہاتھ سے شرمگاہوں کو دھونا۔ ہاتھوں اور شرم گاہوں کو دھونا چاہیئے، خواہ ان پر گندگی لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ [6]
عن ابن عباس قال قالت ميمونة وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم ماء للغسل فغسل يديه مرتين أو ثلاثا ثم أفرغ على شماله فغسل مذاكيره (صحيح البخاري، الرقم: ۲۵۷)
حضرت عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ نے (اس پانی سے) اپنے دونوں ہاتھوں کو دو یا تین بار دھویا پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور (اپنے بائیں ہاتھ سے) اپنی شرم گاہوں کو دھویا۔“
(۸) بدن کے ہر اس حصّہ کو دھونا جہاں نجاست لگی ہو۔ [7]
(۹) مکمل وضو کرنا۔ البتہ اگر کوئی ایسی جگہ غسل کر رہا ہو، جہاں غسل کا پانی جمع ہوتا ہو اور پانی کے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، تو وہ پاؤں کو بعد میں دھوئے یعنی غسل سے فارغ ہو کر، اس جگہ سے ہٹ جائے پھر اپنا پاؤں دھوئے۔ [8]
عن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه قبل أن يدخلهما الإناء ثم غسل فرجه ويتوضأ وضوءه للصلاة (سنن الترمذي، الرقم: ۱٠٤)[9]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کا ارادہ فرماتے تھے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے تھے، پھر اپنی شرم گاہ دھوتے تھے اور نماز والا وضو کرتے تھے۔“
عن ابن عباس قال قالت ميمونة وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء يغتسل به … ثم تنحى من مقامه فغسل قدميه (صحيح البخاري، الرقم: ۲٦۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا ۔۔۔ پھر (غسل کے اخیر میں) آپ اپنی جگہ سے ہٹے اور اپنے پیروں کو دھویا۔“
(۱۰) سر پر تین مرتبہ پانی ڈالنا۔[10]
عن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه قبل أن يدخلهما الإناء ثم غسل فرجه ويتوضأ وضوءه للصلاة ثم يشرب شعره الماء ثم يحثي على رأسه ثلاث حثيات (سنن الترمذي، الرقم: ۱٠٤)[11]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسلِ جنابت کا ارادہ فرماتے تھے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے تھے (پہلے ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے تھے) پھر اپنی شرم گاہ دھوتے تھے اور نماز والا وضو فرماتے تھے پھر اپنے بالوں کو تر کرتے تھے، اس کے بعد اپنے سرپر تین لب پانی ڈالتے تھے۔
(۱۱) بدن کے دائیں حصّہ پر اوپر سے لیکر نیچے تک تین مرتبہ پانی بہانا پھر بائیں حصّہ پر اوپر سے لیکرنیچے تک تین مرتبہ پانی بہانا۔ اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ پانی بدن کے ایک ایک حصّہ تک پہونچ جائے۔ کوئی حصّہ خشک نہ رہے۔ [12]
(۱۲) اگر کوئی فرض غسل کر رہا ہو، تو وہ اس بات کا لحاظ کرے کہ پانی بدن کے ہر حصّہ تک پہونچ جائے، خاص طور پر منھ میں، ناک کے اندر، آنکھوں کے کناروں میں اور ناف کے اندر پانی پہونچانے کا اہتمام کرے۔ بدن کا کوئی عضو ہرگز خشک نہ رہے، اس لیے کہ اگر بال کے برابر بھی کوئی حصّہ خشک رہ گیا، تو فرض غسل مکمل نہیں ہوگا۔ [13]
عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار قال علي فمن ثم عاديت رأسي ثلاثا وكان يجز شعره (سنن أبي داود، الرقم: ۲٤۹)[14]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ چھوڑےگا، اس حصّہ کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا کیا جائےگا (سزا دی جائےگی)۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تین بار فرمایا: اس وجہ سے میں بال رکھنا پسند نہیں کرتا ہوں۔ راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بیان کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے سر کے بال کا حلق کرتے تھے (اس اندیشہ سے کہ غسل میں کوئی بال خشک نہ رہ جائے، جس کی وجہ سے غسل مکمل نہیں ہوتا)۔
(۱۳) غسل کے دوران پانی ضائع نہ کریں۔ نہ تو بہت زیادہ پانی استعمال کریں اور نہ اتنا کم پانی استعمال کریں کہ پورے طور پر بدن کو دھونا ممکن نہ ہو۔ [15]
عن عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبي طالب عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجزئ من الوضوء مد ومن الغسل صاع فقال رجل لا يجزئنا فقال قد كان يجزئ من هو خير منك وأكثر شعرا يعني النبي صلى الله عليه وسلم (سنن ابن ماجة، الرقم: ۲۷٠)[16]
حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وضو کے لیے ایک مُد پانی اور غسل کے لیے ایک صاع پانی کافی ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اتنا پانی ہمارے لیے کافی نہیں ہوتا ہے۔ تو حضرت عقیل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم سے بہتر اور تم سے زیادہ بال والے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے کافی ہوتا تھا (حضرت عقیل رضی اللہ عنہ نے اس کو ڈانٹا کہ جب اتنا پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کافی ہوتا تھا، تو تمہارے لیے کافی کیوں نہیں ہوگا)۔
(۱۴) غسل کے دوران کسی قسم کی بات چیت نہ کریں اور نہ ہی گنگنائیں۔ [17]
(۱۵) غسل کے دوران کوئی بھی دعا نہ پڑھیں۔ [18]
(۱۶) غسل خانہ میں زیادہ وقت نہ لیں، خاص طور پر اگر وہ عمومی غسل خانہ ہو اور دوسرے لوگ بھی اس کا استعمال کرتے ہوں۔ [19]
(۱۷) غسل خانہ میں زیرِ ناف اور بغل کے بال چھوڑ کر گندگی نہ پھیلائیں۔ [20]
(۱۸) گرم پانی استعمال کرنے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ گرم پانی اتنا زیادہ استعمال نہ کریں کہ آپ کے بعد غسل کرنے والوں کو گرم پانی نہ ملے۔ [21]
(۱۹) غسل کے بعد بدن کو کپڑے یا تولیہ سے خشک کر لیں۔ [22]
(۲۰) غسل کے بعد بدن کو جلدی سے ڈھانپ لیں۔ [23]
(۲۱) غسل خانہ میں پیشاب نہ کریں۔ [24]
غسل کے فرائض
(۱) اس طرح کلّی کرنا کہ منھ کے ہر حصّہ میں پانی پہونچ جائے۔
(۲) ناک میں پانی ڈالنا (نرم ہڈی تک پانی پہنچانا)۔
(۳) پورے بدن پر پانی بہانا۔ [25]
(۱) ناپاکی دور کرنے اور پاک ہونے کی نیّت کرنا۔
(۲) اگر بدن کے ستر کا حصّہ چھپا ہو، تو غسل شروع کرنے سے پہلے ”بسم اللہ“ پڑھنا۔
(۳) تین بار دونوں ہاتھوں کو گٹوں سمیت دھونا۔
(۴) شرم گاہوں کو دھونا، خواہ وہاں گندگی لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
(۵) پورے بدن کو دھونے سے پہلے وضو کرنا۔
(۶) تین بار سر پر پانی ڈالنا۔
(۷) بدن کے دائیں حصّہ پر اوپر سے نیچے تک تین بار پانی ڈالنا۔
(۸) بدن کے بائیں حصّہ پر اوپر سے نیچے تک تین بار پانی ڈالنا۔
(۹) بدن پر پانی ڈالنے کے وقت بدن کو رگڑنا؛ تاکہ یقینی طور پر بدن کے ہر حصّہ تک پانی پہونچ جائے ۔
(۱۰) اتنا کم پانی استعمال نہ کرنا کہ اچھی طرح غسل نہ ہو سکے؛ بلکہ اسراف نہ کرنا (پانی ضائع نہ کرنا)۔
(۱۱) قبلہ کی طرف رخ نہ کرنا ۔
(۱۲) ایسی الگ تھلگ جگہ غسل کرنا ، جہاں کسی کی نظر نہ پڑے۔[26]
غسل کے مسنون مواقع
بہت سے موقعوں پر غسل کرنا سنت ہے۔ ان میں سے کچھ مواقع مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) جمعہ کے دن۔ [27]
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل (صحيح البخاري، الرقم: ۸۷۷)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے، تو وہ غسل کرے (یعنی آنے سے پہلے غسل کرے)۔“
(۲) عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن۔ [27]
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل يوم الفطر ويوم الأضحى (سنن ابن ماجة، الرقم: ۱۳۱۵) [28]
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن غسل فرماتے تھے۔“
(۳) عرفہ کے دن۔ [27]
عن زاذان قال سأل رجل عليا عن الغسل قال اغتسل كل يوم إن شئت فقال الغسل الذي هو الغسل قال يوم الجمعة ويوم عرفة ويوم النحر ويوم الفطر (مسند الشافعي على ترتيب السندي، الرقم: ۱۱٤)[29]
حضرت زاذان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غسل کے بارے میں پوچھا (کہ کب غسل کیا جائے)، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر تم چاہو، تو ہر دن غسل کرو۔ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں اس غسل کے بارے میں سوال کر رہا ہوں جو اہم ہے، تو حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا:جمعہ کے دن، عرفہ کے دن، عید الاضحی اور عید الفطر کے دن (ان دِنوں میں غسل کرنا اہم ہے)۔
(۴) احرام باندھنے سے پہلے۔ [27]
عن خارجة بن زيد بن ثابت عن أبيه أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم تجرد لإهلاله واغتسل (سنن الترمذي، الرقم: ۸۳٠)[30]
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے احرام باندھنے سے پہلے اپنے کپڑے کو اتارا اور پھر غسل فرمایا۔“
نوٹ: مندرجہ بالا موقعوں پر غسل کرنا سنّت ہے۔ ان کے علاوہ فقہائے کرام نے کچھ ایسے مواقع ذکر فرمائے ہیں، جہاں غسل کرنا مستحب ہے:
(۱) مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ [31]
(۲) اس شخص کے لیے جس نے پاکی کی حالت میں اسلام قبول کیا ہو، تو اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ [32]
(۳) پچھنہ لگوانے کے بعد غسل کرنا مستحب ہے۔ [33]
[1] (وههنا سنن وآداب ذكرها بعض المشايخ) يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي كذا في الجوهرة النيرة وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل كذا في المنية (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[2] سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (۱/۲۳٦) فالحديث حسن عنده
[3] حدثتني ميمونة قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من الجنابة هذا حديث حسن صحيح (سنن الترمذي، الرقم: ٦۲)
[4] (وسننه) أي سنن الغسل كسنن الوضوء سوى الترتيب وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة لأنه يكون غالبا مع كشف عورة (الدر المختار ۱/۱۵٦)
(ومن آدابه) أي آداب الوضوء … (استقبال القبلة ودلك أعضائه) … (والجلوس فى مكان مرتفع) (الدر المختار ۱/۱۲۷)
[5] (الفصل الثاني في سنن الغسل) وهي أن يغسل يديه إلى الرسغ ثلاثا ثم فرجه ويزيل النجاسة إن كانت على بدنه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة إلا رجليه هكذا في الملتقط (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[6] (و) كذا (غسل فرجه) وإن لم يكن به نجاسة كما فعله النبي صلى الله عليه وسلم ليطمئن بوصول الماء إلى الجزء الذي ينضم من فرجه حال القيام وينفرج حال الجلوس (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۱٠٤)
[7] (الفصل الثاني في سنن الغسل) وهي أن يغسل يديه إلى الرسغ ثلاثا ثم فرجه ويزيل النجاسة إن كانت على بدنه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة إلا رجليه هكذا في الملتقط (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[8] (ثم يتوضأ كوضوئه للصلاة فيثلث الغسل ويمسح الرأس) في ظاهر الرواية وقيل لا يمسحها لأنه يصب عليها الماء والأول أصح لأنه صلى الله عليه وسلم توضأ قبل الاغتسال وضوءه للصلاة وهو اسم للغسل والمسح (ولكنه يؤخر غسل الرجلين إن كان يقف) حال الاغتسال (في محل يجتمع فيه الماء) لاحتياجه لغسلهما ثانيا من الغسالة (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۱٠۵)
[9] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح
[10] (بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا وقيل يثني بالرأس وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح وظاهر الرواية والأحاديث قال في البحر وبه يضعف تصحيح الدرر
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: (قوله وظاهر الرواية) كذا عبر في النهر والذي في البحر وغيره التعبير بظاهر الهداية (قوله والأحاديث) قال الشيخ إسماعيل وفي شرح البرجندي وهو الموافق لعدة أحاديث أوردها البخاري في صحيحه اهـ فافهم (قوله تصحيح الدرر) هو ما مشى عليه المصنف في متنه هنا (رد المحتار ۱/۱۵۹)
[11] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح
[12] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح
[13] (وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل وإن كانت يسيرة (بدائع الصنائع ۱/۲٦۷)
ويجب إيصال الماء إلى داخل السرة وينبغي أن يدخل أصبعه فيها للمبالغة كذا في محيط السرخسي (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[14] سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (۱/۲۳۵) فالحديث حسن عنده
[15] (وههنا سنن وآداب ذكرها بعض المشايخ) يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي كذا في الجوهرة النيرة وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل كذا في المنية (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[16] قال البوصيري في الزوائد (۱/۹۹): إسناده ضعيف لضعف حبان ويزيد
لهذا الحديث شاهد من حديث ابن عباس قال قال رجل كم يكفيني للوضوء قال مد قال كم يكفيني للغسل قال صاع قال فقال الرجل لا يكفيني فقال لا أم لك قد كفى من هو خير منك رسول الله صلى الله عليه وسلم رواه أحمد والبزار والطبراني في الكبير ورجاله ثقات (مجمع الزوائد الرقم: ۱٠۹۹)
[17] (وههنا سنن وآداب ذكرها بعض المشايخ) يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي كذا في الجوهرة النيرة وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل كذا في المنية (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[18] أقول ويستثنى الدعاء أيضا فإنه مكروه كما في نور الإيضاح (قوله وآدابه كآدابه) نص عليه في البدائع قال الشرنبلالي ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقا أما كلام الناس فلكراهته حال الكشف وأما الدعاء فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال اهـ (رد المحتار ۱/۱۵٦)
[19] وفي الأصل من الادب أن لا يسرف في الماء ولا يقتر كذا في الخلاصة وهذا إذا كان ماء نهر أو مملوكا له فإن كان ماء موقوفا على من يتطهر أو يتوضأ حرمت الزيادة والإسراف بلا خلاف كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية ۱/۸)
(وسننه) أي سنن الغسل كسنن الوضوء سوى الترتيب وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة لأنه يكون غالبا مع كشف عورة (الدر المختار ۱/۱۵٦)
(ومن آدابه) أي آداب الوضوء … (استقبال القبلة ودلك أعضائه) … (والجلوس فى مكان مرتفع) (الدر المختار ۱/۱۲۷)
[20] وإذا قص أظفاره أو حلق شعره ينبغي أن يدفنه قال تعالى ألم نجعل الأرض كفاتا أحياء وأمواتا وإن ألقاه فلا بأس به ويكره إلقاؤه في الكنيف والمغتسل قالوا لأنه يورث المرض (الاختيار ٤/۱٦۷)
[21] عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه (صحيح البخاري، الرقم: ۱٠)
[22] (وههنا سنن وآداب ذكرها بعض المشايخ) يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي كذا في الجوهرة النيرة وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل كذا في المنية (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[23] عن زرعة بن مسلم بن جرهد الأسلمي عن جده جرهد قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بجرهد في المسجد وقد انكشف فخذه فقال إن الفخذ عورة هذا حديث حسن ما أرى إسناده بمتصل (سنن الترمذي، الرقم: ۱۷۹۵)
[24] عن عبد الله بن مغفل أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يبول الرجل في مستحمه وقال إن عامة الوسواس منه (سنن الترمذي، الرقم: ۲۱)
ويكره أن يبول في موضع يتوضأ فيه أو يغتسل كذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية ۱/۵٠)
[25] (الفصل الأول في فرائضه) وهي ثلاثة المضمضة والاستنشاق وغسل جميع البدن على ما في المتون (الفتاوى الهندية ۱/۱۳)
[26] (وههنا سنن وآداب ذكرها بعض المشايخ) يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي كذا في الجوهرة النيرة وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل كذا في المنية (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
(الفصل الثاني في سنن الغسل) وهي أن يغسل يديه إلى الرسغ ثلاثا ثم فرجه ويزيل النجاسة إن كانت على بدنه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة إلا رجليه هكذا في الملتقط (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
(بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا وقيل يثني بالرأس وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح وظاهر الرواية والأحاديث قال في البحر وبه يضعف تصحيح الدرر
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: (قوله وظاهر الرواية) كذا عبر في النهر والذي في البحر وغيره التعبير بظاهر الهداية (قوله والأحاديث) قال الشيخ إسماعيل وفي شرح البرجندي وهو الموافق لعدة أحاديث أوردها البخاري في صحيحه اهـ فافهم (قوله تصحيح الدرر) هو ما مشى عليه المصنف في متنه هنا (رد المحتار ۱/۱۵۹)
[27] (وسن رسول الله صلى الله عليه وسلم الغسل للجمعة والعيدين وعرفة والإحرام) نص على السنية (الهداية ۱/۲٠)
[28] قال البوصيري في الزوائد (۱/٤۱۷): هذا إسناد فيه جبارة وهو ضعيف وحجاج بن تميم ضعيف أيضا
لهذا الحديث شاهد من حديث عبد الله بن عمر: مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان يغتسل يوم الفطر قبل أن يغدو إلى المصلى (الموطأ للإمام مالك، الرقم: ٦٠۹)
وكذا له شاهد من حديث زاذان قال سأل رجل عليا عن الغسل قال اغتسل كل يوم إن شئت فقال الغسل الذي هو الغسل قال يوم الجمعة ويوم عرفة ويوم النحر ويوم الفطر (مسند الشافعي على ترتيب السندي، الرقم: ۱۱٤)
[29] عن زاذان قال سألت عليا رضي الله عنه عن الغسل فقال اغتسل إذا شئت فقلت إنما أسألك عن الغسل الذي هو الغسل قال يوم الجمعة ويوم عرفة ويوم الفطر ويوم الأضحى (شرح معاني الآثار للطحاوي، الرقم: ۷۲٤)
[30] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب
عن ابن عمر قال من السنة أن يغتسل الرجل إذا أراد أن يحرم رواه البزار والطبراني في الكبير إلا أنه قال عند إحرامه وعند دخول مكة ورجال البزار ثقات كلهم (مجمع الزوائد، الرقم: ۵۳۲۳)
[31] (كما يجب على من أسلم جنبا أو حائضا) … (وإلا) بأن أسلم طاهرا أو بلغ بالسن (فمندوب) … (وندب لمجنون أفاق) … (وعند حجامة وفي ليلة براءة) … و (عند دخول مكة لطواف الزيارة ولصلاة كسوف) (الدر المختار ۱/۱٦۷-۱٦۹)
[32] عن أبي هريرة قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال أطلقوا ثمامة فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله (صحيح البخاري، الرقم: ٤٦۲)
[33] حدثنا وكيع عن الأعمش عن مجاهد عن عبد الله بن عمرو قال اغتسل من الحجامة (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم:٤۸٠)
حدثنا المحاربي عن ليث عن مجاهد عن علي في الرجل يحتجم أو يحلق عانته أو ينتف إبطيه قال يغتسل (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم: ٤۸۲)
حدثنا عبيد الله قال أخبرنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال إذا احتجم الرجل فليغتسل ولم يره واجبا (المصنف لابن أبي شيبة، الرقم:٤۸٤)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી