حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط پنجم
لوگوں کے دین کی حفاظت
ایک مرتبہ ایک صاحب گنے کے رس کا گھڑا ہدیتہ لائے ۔ حضرت نے وہ بدیں وجہ لینے سے انکار کر دیا کہ یہ ” اس زمین میں کاشت شدہ گنوں کا رس ں کا رس ہے۔ جو رہن یا اگر چه وه خاص ہے۔ جو رہن پڑی ہے۔ ہ خاص صورت رہن کی جو یہاں واقع تھی۔ جائز ہے۔ لیکن میں کس کس سے کہتا پھروں گا کہ یہ وہ رہن ہے۔ جو جائز ہے سب یہی کہیں گے کہ رہن کی زمین کا رس لے لیتا ہے۔ لہذا رہن رکھنا جائز ہے۔ اپنا تو دنیا کا فائدہ کر لوں اور دوسروں کے دین کا نقصان کروں۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔” (سیرتِ اشرف، ۱/۳۳۱)
استقامت
ایک مرتبہ آپ کے استاد شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ آپ کے مہمان ہوئے۔ آپ نے انکی راحت و آرام کے تمام انتظامات کئے تھے۔ کہ آپ کی تصنیف و تالیف کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے معمول کو جاری رکھنے کیلئے اپنے استاد محترم سے بہ صد ادب عرض کیا کہ : حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔ اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر بعد کو حاضر ہو جاؤں۔” حضرت شیخ الہند نے معمول کی مداومت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فوراً اجازت دے دی کہ : ضرور لکھو۔ میری وجہ سے اپنا حرج نہ کرو۔ ” گو اس روز آپ کا کام میں دل نہیں لگا۔ لیکن بے برکتی کے خوف سے نامہ نہیں ہونے دیا۔ تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہو گئے۔ (سیرتِ اشرف، ۱/ ۳۵۹-۳۶۰)