
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط پنجم
لوگوں کے دین کی حفاظت
ایک مرتبہ ایک صاحب گنّے کے رس کا گھڑا ہدیتًہ لائے۔ حضرت نے وہ بدیں وجہ لینے سے انکار کر دیا کہ یہ اس زمین میں کاشت شدہ گنّوں کا رس ہے، جو رہن پڑی ہے۔
(حضرت تھانوی رحمۃ الله علیہ نے ہدیہ اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ یہ خیال کریں کہ بطور رہن رکھی گئی زمین سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؛ کیوں کہ ان دنوں میں یہ عام رواج تھا کہ جب لوگ قرض دیتے، تو وہ اس کو محفوظ کرنے کے لیے قرض دار سے کوئی چیز رہن کے طور پر لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ اس رہن سے فائدہ اٹھاتے تھے؛ جب کہ شریعت میں یہ جائز نہیں ہے کہ رہن سے کوئی فائدہ حاصل کیا جائے۔ رہن کے ذریعے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے، وہ حرام ہے اور سود شمار کیا جاتا ہے)۔
حضرت تھانوی رحمہ الله نے اس کے بعد ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگرچہ وہ خاص صورت رہن کی، جو یہاں واقع تھی، جائز ہے؛ (کیوں کہ مالکِ زمین ہی مجھے یہ رس دے رہا ہے نہ کہ قرض خواہ)؛ لیکن میں کس، کس سے کہتا پھروں گا کہ یہ وہ رہن ہے، جو جائز ہے۔ سب یہی کہیں گے کہ رہن کی زمین کا رس لے لیتا ہے؛ لہذا رہن رکھنا جائز ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا قرض خواہ کے لیے جائز ہے۔ اپنا تو دنیا کا فائدہ کر لوں اور دوسروں کے دین کا نقصان کروں۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ (سیرتِ اشرف، ۱/۳۳۱)
استقامت
اپنی معمولات پر استقامت کرنا دینی ترقی کے حصول کے لیے اور اپنے سارے کاموں میں برکت حاصل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے؛ لہذا ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ روزانہ ہر کام کے لیے ایک خاص وقت مقرر کرے۔ حضرت تھانوی رحمۃ الله علیہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ وہ ہمیشہ اپنی معمولات کو پابندی کے ساتھ پورا کریں۔
ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے استاذ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمتہ الله علیہ آپ کے یہاں مہمان ہوئے۔
آپ نے ان کی راحت وآرام کے تمام انتظامات کیے تھے کہ آپ کی تصنیف وتالیف کا وقت آگیا، تو آپ نے اپنے معمول کو جاری رکھنے کے لیے اپنے استاد محترم سے بہ صد ادب عرض کیا کہ حضرت! میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔ اگر حضرت اجازت دیں، تو کچھ دیر لکھ کر بعد کو حاضر ہو جاؤں۔
حضرت شیخ الہند نے معمول کی مداومت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فوراً اجازت دے دی کہ ضرور لکھو۔ میری وجہ سے اپنا حرج نہ کرو۔
گو اس روز آپ کا کام میں دل نہیں لگا؛ لیکن بے برکتی کے خوف سے ناغہ نہیں ہونے دیا۔ تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضرِ خدمت ہو گئے۔ (سیرتِ اشرف، ۱/ ۳۵۹-۳۶۰)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી