
کیا مسلمان انترفیت اجتماعات میں شرکت کر سکتا ہے، جو کافروں کے مختلف مذاہب کے درمیان ہوتی ہے؟
حق وباطل کے درمیان مخالفت اور لڑائی انسان کی تخلیق کے ابتداء ہی سے شروع ہوئی۔ جس وقت الله تعالیٰ نے حضرت نبی آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اسی وقت سے ان کے سخت دشمن ابلیس نے ان کو سیدھے راستے سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے کی سازشیں شروع کر دی۔
حضرت نبی آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد حق اور باطل کی یہ مخالفت اور لڑائی جاری رہی اور انسانی تاریخ کے ہر دور میں الله تعالیٰ کے لشکروں نے شیطانی لشکروں کا مقابلہ کیا۔ الله تعالیٰ کے لشکر انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروکار تھے اور شیطان کے لشکر کفار تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کفار نے دیکھا کہ اسلام روز بروز ترقی کر رہا ہے، تو انہوں نے اسلام کی اشاعت کو روکنے کے لیے مختلف طریقے اور راستے تلاش کیے۔
انہوں نے جو طریقے اپنائے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کے سامنے مختلف تجاویز پیش کیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کفار کی تجاویز
کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے محمد! ہم آپ کو بہت زیادہ مال دیں گے اور آپ کو مکہ مکرمہ کا سب سے زیادہ مال دار آدمی بنائیں گے۔ آپ جس عورت کو پسند کریں، اس سے ہم آپ کی شادی کر دیں گے اور بالاتفاق آپ کو اپنا پیشوا بنائیں گے؛ مگر شرط یہ ہے کہ آپ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں۔
اگر آپ اس سے خوش نہیں ہیں، تو ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کریں اور ایک سال ہم آپ کے اللہ کی عبادت کریں۔ اس طرح ہمارے اختلافات دور ہو جائیں گے اور آپس میں صلح ہو جائےگی اور اگر وہ دین جس کی طرف آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں، اس میں کوئی بھلائی ہے، تو اس میں ہمارا حصہ ہو جائےگا اور اگر وہ دین جس کی طرف ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں، اس میں کوئی بھلائی ہے، تو اس میں آپ کا حصہ ہو جائےگا۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے، تو ہم آپ کی پیروی کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ میں انتظار کروں گا کہ اس معاملہ میں اللہ تعالی ہمارے درمیان فیصلہ کریں۔ اس پر سورہ کافرون نازل ہوئی۔
قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُونَ ﴿۱﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿۲﴾ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۳﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿۴﴾ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۵﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿۶﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں تمہارے معبودوں (بتوں) کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود (اللہ تعالی) کی پرستش کرتے ہو اور نہ (مستقبل میں) میں تمہارے معبودوں (بتوں) کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود (اللہ تعالی) کی پرستش کروگے۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔
اس سورت کا کھلم کھلا اعلان
اس سورت میں الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو منع فرما دیا کہ وہ کفار کی کسی بھی تجویز کو قبول کرے؛ بلکہ الله تعالی نے ان کو حکم دیا کہ وہ خالص توحید کا اعلان کرے اور صرف دینِ اسلام پر ثابت قدم رہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو کفار کی باتوں پر عمل کرنے سے اس لیے منع فرما دیا کہ دینِ اسلام ہر اعتبار سے ایک کامل اور جامع دین ہے، جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت، ان کی عبادت اور صرف ان کی اطاعت وفرماں برداری پر مبنی ہے۔
لہذا دینِ اسلام کو کسی بھی دوسرے مذہب ودین کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ دینِ اسلام کا دار ومدار اور بنیاد اس بات پر ہے کہ ہم صرف ایک الله تعالیٰ کو مانیں، ان پر ایمان رکھیں اور صرف ان کی اطاعت کریں؛ جب کہ دیگر کفار کے مذاہب کی بنیاد کفر وشرک اور الله تعالیٰ کی مخالفت پر ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب اس سورت نے کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ دینِ اسلام کو کفار کے مذہب ودین کے ساتھ کسی بھی طرح سے نہیں ملایا جا سکتا ہے، تو پھر کسی مسلمان کے لیے انترفیت اجتماعات میں شرکت کرنا جائز نہیں ہوگا، جن میں شرکیہ وکفریہ اعمال ہوتے ہیں، شرک اور کفر کی دعائیں ہوتی ہیں اور ہر شریک اپنے مذہب ودین کی تعریف کرتا ہے اور شرک اور کفر کو فروغ دیتا ہے۔
قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا حکم
جو مسلمان ایسے انترفیت اجتماعات میں شرکت کرتا ہے، جہاں کفریہ وشرکیہ اعمال ہوتے ہیں، وہ الله تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے۔
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿١٤٠﴾
جب تم سنو کہ الله کی آیات کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، تو تم ان کے ساتھ مت بیٹھو؛ یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں لگ جائیں، تو تم بھی انہی جیسے ہوں گے (یعنی اگر تم ان کے ساتھ بیٹھوگے، تب تو تم ان جیسے ہو جاؤگے)۔ یقیناً الله تعالیٰ منافقوں اور کافروں کو سب کو جہنم میں جمع کرےگا۔ (سورہ نساء، آیت: ۱۴۰)
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انترفیت اجتماعات میں جب پادری اور پنڈت وغیرہ اپنے مذہب ودین کی تعریف کریں گے یا اپنے بتوں وغیرہ سے مانگیں گے، تو وہ شرک وکفر کے مرتکب ہوں گے اور اسلام کی مخالفت کر رہے ہوں گے۔
لہٰذا جب کوئی مسلمان کفار کی رعایت کرےگا اور اس انترفیت اجتماع میں شرکت کرےگا، تو وہ الله تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا، جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔
فقہائے کرام نے بیان کیا ہے کہ ان انترفیت اجتماعات میں شرکت کرنے سے ایمان کے ضائع ہونے کا بڑا خطرہ اور اندیشہ ہے۔
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી