امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – بارویں قسط

کیا مسلمان بین المذاہب اجتماعات میں شرکت کر سکتا ہے؟

حق وباطل کے درمیان لڑائی انسان کی تخلیق کے آغاز سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اسی وقت سے ان کے سخت دشمن ابلیس نے ان کو سیدھے راستے سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے کی سازشیں شروع کر دی۔

حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد حق اور باطل کی یہ لڑائی جاری رہی اور انسانی تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے لشکروں نے شیطانی لشکروں کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے لشکر انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروکار تھے اور شیطان کے لشکر کفار تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کفار نے دیکھا کہ اسلام روز بروز ترقی کر رہا ہے، تو انہوں نے اسلام کی اشاعت کو روکنے کے لیے مختلف طریقے اور راستے تلاش کیے۔

انہوں نے جو طریقے اپنائے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کے سامنے مختلف تجاویز پیش کیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کفار کی تجاویز

کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے محمد! ہم آپ کو بہت زیادہ مال دیں گے اور آپ کو مکہ مکرمہ کا سب سے زیادہ مال دار آدمی بنائیں گے۔ آپ جس عورت کو پسند کریں، اس سے ہم آپ کی شادی کر دیں گے اور بالاتفاق آپ کو اپنا پیشوا بنائیں گے؛ مگر شرط یہ ہے کہ آپ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں۔

اگر آپ اس سے خوش نہیں ہیں، تو ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کریں اور ایک سال ہم آپ کے اللہ کی عبادت کریں۔ اس طرح ہمارے اختلافات دور ہو جائیں گے اور آپس میں صلح ہو جائےگی اور اگر وہ دین جس کی طرف آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں، اس میں کوئی بھلائی ہے، تو اس میں ہمارا حصہ ہو جائےگا اور اگر وہ دین جس کی طرف ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں، اس میں کوئی بھلائی ہے، تو اس میں آپ کا حصہ ہو جائےگا۔

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے، تو ہم آپ کی پیروی کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ میں انتظار کروں گا کہ اس معاملہ میں اللہ تعالی ہمارے درمیان فیصلہ کریں۔ اس پر سورہ کافرون نازل ہوئی۔

 قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُونَ ﴿۱﴾‏‏‏ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿۲﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۳﴾‏ ‏وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿۴﴾‏‏‏ وَلَا أَنتُمْ عٰبِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿۵﴾‏‏‏ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿۶﴾‎ ‏‏‏

آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں تمہارے معبودوں (بتوں) کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود (اللہ تعالی) کی پرستش کرتے ہو اور نہ (مستقبل میں) میں تمہارے معبودوں (بتوں) کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود (اللہ تعالی) کی پرستش کروگے۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔

 سورہ کافرون کا کھلا اعلان

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی کسی بھی تجویز کو قبول کرنے سے منع فرما دیا اور آپ کو خالص توحید (اللہ تعالیٰ کی وحدانیت )کا اعلان کرنے اور کسی بھی طرح کے سمجھوتے کے بغیر خالص اور پاکیزہ دین یعنی دین اسلام  پر ثابت قدم رہنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کو کفار کی تجاویز کو قبول کرنے سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام ایک خالص، مکمل اور جامع دین ہے جس کی بنیاد توحید کے اصولوں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت و فرماں برداری پر ہے ۔ اس لیے اس دین کو کبھی بھی کسی دوسرے مذہب کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا ، کیوں کہ اسلام کے علاوہ ہر مذہب کی بنیاد کفر، شرک اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی  خلاف ورزی پر ہے، جب کہ دین اسلام کی بنیاد پاکیزگی ، توحید (اللہ تعالیٰ کی وحدانیت) اور اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت ہے پر ہے ۔  خلاصہ یہ ہے کہ جب اس سورت میں علی الاعلان یہ کہا گیا ہے کہ اسلام کو کفار کے مذہب کے ساتھ کسی بھی طرح سے جوڑا یا ملایا نہیں جا سکتا ، تو پھر کسی مسلمان کے لیے ایسے بین المذاہب اجتماعات میں شرکت کرنا جائز نہیں ہوگا جن میں شرکیہ اور کفریہ اعمال ہوتے ہیں، شرک اور کفر کی دعائیں ہوتی ہیں اور ہر شریک اپنے مذہب کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کرتا ہے اور شرک اور کفر کو فروغ دیتا ہے۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم

 جو مسلمان ایسے بین المذاہب اجتماع میں شرکت کرتا ہے ، جہاں کفریہ  و شرکیہ اعمال ہوتے ہیں ، وہ  اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

جب تم سنو کہ (لوگ ) اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں  اور مذاق اڑا رہے ہیں ، تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں لگ جائیں۔ (اگر تم ان کے ساتھ بیٹھو گے تو) اس صورت میں تم بھی ان جیسے ہو جاؤ گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرے گا۔ (سورہ نساء آیت 140)

ظاہر ہے کہ ایک بین المذاہب اجتماع میں جب پادری، پنڈت وغیرہ اپنے مذہب کے بارے میں بلند بانگ باتیں کریں گے یا اپنے بتوں وغیرہ کی عبادت میں مشغول ہوں گے تو وہ شرک و کفر کے مرتکب ہوں گے اور اسلام کی مخالفت کررہے ہوں گے۔  لہٰذا ان (کفار ) کی رعایت کرتے ہوئے اس اجتماع میں شرکت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والا سمجھا جائے گا جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔

فقہا ئے کرام نے ذکر کیا ہے کہ ان اجتماعات میں شرکت کرنے سے ایمان کے ضائع ہونے کا بڑا خطرہ اور اندیشہ ہے۔

Check Also

باغ محبت (اڑتیسویں قسط)

توبہ کے آنسو – وہ پانی جو دل کے دھونے کے لیے درکار ہے حضرت …