توبہ کے آنسو – وہ پانی جو دل کے دھونے کے لیے درکار ہے
حضرت شاہ رکن الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے عالم اور بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہے ان کو بے پناہ مقبولیت عطا فرمائی تھی۔
حضرت شاہ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں جمعہ پر بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ دور، دور سے مخلوق جمع ہوتی تھی۔
تو بادشاہِ وقت غیاث الدین تغلق پوچھتا ہے مولانا ظہیر الدین سے کہ لوگوں میں ان کی (یعنی شاہ رکن الدین کی) کرامات بڑی مشہور ہیں۔ آپ نے بھی کوئی کرامت دیکھی ہے؟
مولانا ظہیر الدین فرماتے ہیں کہ اس سے بڑی کرامت کیا ہو سکتی ہے کہ بغیر کسی تداعی کے، بلانے کے، کہتے ہیں: دور، دور سے یہ ساری جمعہ کو یہ جو مخلوق آ کر اکھٹی ہو جاتی ہے۔ میں تو اسی کو ان کی سب سے بڑی کرامت سمجھتا ہوں۔
(مولانا ظہیر الدین مزید فرماتے ہیں:) تو دربار میں بادشاہ نے پوچھا، تو اس کا مناسب جواب دینا پڑا؛ لیکن دل میں پھر بھی خلش اور اعتراض باقی تھا۔
وہ (یعنی مولانا ظہیر الدین) خود فرماتے ہیں اپنے متعلق کہ میں نے وہاں (یعنی بادشاہ کے دربار میں) تو رعایت میں یہ جواب دے دیا کہ یہی ان کی سب سے بڑی کرامت معلوم ہوتی ہے کہ لوگ اتنے دور، دور سے کیوں ان کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں، کھینچے چلے آتے ہیں؛ لیکن میرے دل میں، میں نے سوچا کہ ممکن ہے کہ اس کی وجہ اور اس کا سبب اور اس کی علت بزرگی نہ ہو؛ بل کہ اور کوئی وجہ ہو کہ (شاہ رکن الدین) عملیات جانتے ہوں اور تسخیر کا ان کے پاس عمل ہو۔ اس کی وجہ سے لوگ دام میں پھنس جاتے ہیں۔ عملِ تسخیر کی وجہ سے مسخر ہو جاتے ہیں۔
(مولانا ظہیر الدین) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کبھی چل کر ان کا امتحان لینا چاہیے ان کی بزرگی کا۔
پھر میں نے ارادہ کر لیا کہ چلو، کل ہی میں جاؤں گا ان کے پاس اور ان سے میں شریعت کے احکام پر گفتگو کروں گا کہ شریعت میں یہ جو احکام ہیں ان کے علل، ان کے اسباب کیا ہیں؟اس کا ریزن ہر حکم کا کیا ہے؟
تو انہوں نے سوچا کہ میں کَل جا کر حضرت (یعنی شاہ رکن الدین) سے پوچھوں گا کہ یہ وضو میں جو کُلّی کرائی جاتی ہے، ناک میں پانی ڈالتے ہیں، اس کی کیا ضرورت؟ اور یہ حکم کیوں؟
(مولانا ظہیر الدین) فرماتے ہیں کہ میں صرف یہ سوچ کر کے سویا۔ رات کو خواب میں حضرت شاہ رکن الدین کی زیارت ہوئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ان کے یہاں پہنچا، تو انہوں نے مجھے کوئی چیز جس طرح آنے والے مہمان کو پیش کیا جاتا ہے کہ حلوہ پیش کیا۔ وہ میں نے کھایا۔
(مولانا ظہیر الدین) کہتے ہیں کہ صبح جب میری آنکھ کھلی، تو میں اس وقت بھی اس کی لذت سارا دن محسوس کرتا رہا یعنی کوئی عجیب وغریب قسم کی چیز انہوں نے کھلائی۔ وہ حلوہ کیا تھا! ایک نادر شئ، جس کا انسان اس کی لذت کا تصور نہیں کر سکتا۔
(مولانا ظہیر الدین) فرماتے ہیں کہ اس خواب سے بھی میں متاثر نہیں ہوا۔ میں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ بہتیرے لوگ روز خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ شیطان بھی کبھی خواب میں اس طرح کے خواب دکھا دیتا ہے، تو کہتے ہیں: میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا کیا اعتبار؟ اور میں اپنے دل میں ان کی شان میں، ان کے اوپر معترض بن کر (یعنی ان پر اعتراض کرنے کے لیے) ان کی خدمت میں پہنچا۔
جیسے ہی حاضری ہوئی اور زیارت ہوئی، تو مصافحہ کے بعد انہوں نے استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت اچھا ہوا، مولانا! آپ تشریف لے آئے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ کسی کے ساتھ کوئی علمی گفتگو کی جائے۔ میں ایسے ہی کسی آدمی کی تلاش میں تھا۔ اچھا ہوا، آپ تشریف لائے۔ تشریف رکھیے!
اور یہ فرما کر انہوں نے شروع کیا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں کیسی مزکّٰی، مصفّٰی، کیسی پاکیزہ شریعت عطا فرمائی کہ اس کے کسی حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
مثلاً: ہم وضو کرتے ہیں۔ سب سے پہلے فرمایا کہ چُلّو بھرو۔ ہاتھ میں پانی لو اور ہاتھ دھوؤ۔
جو دل میں رات کو انہوں نے (یعنی مولانا ظہیر الدین نے) سوچ رکھا تھا، ان کے دماغ سے بزرگ (یعنی شاہ رکن الدین) وہ پڑھ رہے ہیں (یعنی شاہ رکن الدین رحمہ اللہ ان ہی سوالات پر گفتگو فرما رہے تھے، جن کے بارے میں مولانا ظہیر الدین دریافت کرنے والے تھے)۔
(شاہ رکن الدین نے فرمایا:) تو کوئی اجنبی اور جاہل ہوگا، وہ سوچےگا کہ بھئی! یہ ایسا کیوں ہوگا؟
(لیکن) وہ تو عین عقل کے مطابق ہے کہ شریعت نے وضو اور طہارت کے لیے ہمیں اس کا پابند کیا ہے کہ ہم پاک پانی استعمال کریں اور پاک پانی وہ ہوتا ہے کہ جس میں یہ اوصاف ثلاثہ(رنگ، بو اور مزہ ) ہوں۔
اس کے معلوم کرنے اور دیکھنے کے لیے یہ ترتیب ہے:
سب سے پہلے اس کا رنگ، تو اس لیے حکم ہوا کہ پہلے ہاتھ میں چلو جب بھرےگا، تو انسان دیکھےگا: اس کا رنگ کیا ہے۔
اور اس کے بعد فرمایا کہ بُو اور مزہ۔ تو کلی کرےگا، تو مزہ معلوم ہو جائےگا کہ ٹھیک ہے یا نہیں۔
ناک میں ڈالا، تو ویسے ہی دور سے اگر کسی کی سونگھنے کی طاقت کمزور ہو، تو دور سے بھی انسان اس کو محسوس کر سکتا ہے اور سونگھ سکتا ہے کہ بدبو ہے، نہیں ہے۔ فرمایا کہ اندر بھی ڈال دو، تو اچھی طرح پتہ لگ جائےگا۔
کہنے لگے کہ یہ ہماری عجیب وغریب شریعت ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز، بڑے سے بڑا حکم، ہر حکم کے پیچھے ایک بڑی لمبی عقلی داستان ہے۔
اس کے بعد حضرت فرمانے لگے کہ مولانا! یہ تو اب کوئی بے وضو ہو، تو اس کے لیے وضو کا یہ حکم دیا گیا اور اس میں ہاتھ دھوؤ، کلی کرو، ناک میں پانی ڈالو، منہ دھوؤ، ہاتھ دھوؤ، مسح کرو، پیر دھوؤ۔
اور بڑی نجاست کے سلسلہ میں حکم ہوا کہ سارے بدن پر پانی ڈالو، غسل کرو، تو یہ بھی بڑا عجیب حکم کہ اپنی بیوی، منکوحہ، اس کے ساتھ مجامعت کی اور مجامعت کے ساتھ ہی اس کے اوپر غسل فرض ہو گیا اور جب تک غسل نہ کرے، اس وقت تک یہ سارا جسم نجس رہےگا۔
تو ایک منکوحہ بیوی اس کے ساتھ مجامعت کی وجہ سے سارا جسم ناپاک ہو گیا اور اس کی طہارت کے لیے عامۃ الناس بھی جانتے ہیں کہ غسل فرض ہے۔
دل ناپاک ہو جائے، تو کیا علاج؟
لیکن کہتے ہیں کہ یہ تو ظاہری جسم کی ناپاکی سب کو معلوم ہے؛ لیکن ایک قسم کی ناپاکی ہے کہ جس سے دل ناپاک ہو جاتے ہیں اور دل ناپاک کیسے ہوتے ہیں؟
فرمایا: وہاں تو ایک اپنی حلال منکوحہ بیوی اس کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے ملاعبت اور کھیل کرنے کی وجہ سے سارا جسم ناپاک، تو جو دین سے دور جو مجمع ہے، جو بے دین قسم کے لوگ ہیں، جن کو اللہ تبارک وتعالی کی ذات سے نہ کوئی لگاؤ، نہ کوئی تعلق، نہ اس کی یاد، اس کی یاد سے وہ کوسوں دور، تو ان کے ساتھ مصاحبت اور بیٹھنے، اٹھنے کی وجہ سے انسان کا دل ناپاک ہو جاتا ہے۔ تو آپ بتا سکتے ہیں کہ اس ناپاکی کو کیسے دور کیا جائے؟
حضرت مولانا ظہیر الدین صاحب تو اب پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ جب حضرت نے بیان شروع فرمایا کلی سے اور جو دل میں اعتراض لے کر گئے تھے اور سوال لے کر گئے تھے، وہیں سے حضرت نے شروع فرمایا، تو اب رو پڑے۔
وہ (مولانا ظہیر الدین) کہتے ہیں کہ حضرت! میں تو اس لائن سے تو بالکل جاہل آدمی ہوں۔ حضرت ہی فرمائیے۔
تو حضرت نے فرمایا کہ یہ جو پانی، جس میں اوصاف ثلاثہ (رنگ، بو اور مزہ) ڈھوندھے جاتے ہیں، دیکھے جاتے ہیں، اس کے ڈالنے سے ظاہری جسم کی ناپاکی دور ہوتی ہے؛ مگر یہ جو دل ناپاک ہو جاتے ہیں، اس کے لیے دوسرا پانی درکار ہے، جو آنکھوں سے نکلنا چاہیے، تو جو آنکھوں سے پانی نکلتا ہے، وہ دل کے دھونے کے لیے درکار ہے۔ (کراماتِ اولیاء ۱/ ۲۶۸-۲۷۲)