حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:
جی ہاں! آج کل بے پردگی کا زور ہے۔ بڑے فتنہ کا زمانہ ہے۔
یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ پردہ عورتوں کو قید میں رکھنا ہے۔
میں کہتا ہوں یہ قید نہیں؛ بلکہ حفاظت ہے، جو ہر نفیس چیز کے لئے عقلًا تجویز کی جاتی ہے۔
دیکھو! ریل کے سفر میں کوئی اپنے روپیہ، پیسہ کو کھول کر عام منظر پر دکھلاتا ہوا نہیں چلتا، کیسی حفاظت سے رکھتا ہے۔ ایسے ہی عورت کو عام منظر پر لانا ظاہر ہے کہ خطرات سے خالی نہیں۔ پس جو اندیشہ وہاں ہے، وہی اندیشہ یہاں ہے۔
ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورت کو پردے میں رکھنے کی مصلحت یہ کہی جاتی ہے کہ عفت محفوظ رہے؛ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پردہ میں بھی خرابیاں ہو جاتی ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ پردہ کے اندر قیامت تک خرابی نہ ہوگی۔ خرابی جب ہوگی، بے پردگی ہی سے ہوگی۔ جب تک وہ پردہ رکھیں گی، خرابی ہو ہی نہیں سکتی۔ خرابی کی ابتداء ہمیشہ بے پردگی ہی سے ہوگی۔ (ملفوظاتِ حکیم الامّت، ج ۷، ص ۱۲۸)