فضائلِ اعمال – ۲۹

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک مشرک سے قرض لینا

حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک صاحب نے پوچھا کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخراجات کی کیا صورت ہوتی تھی؟

حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جمع تو رہتا ہی نہیں تھا۔ یہ خدمت میرے سپرد تھی، جس کی صورت یہ تھی کہ کوئی مسلمان بھوکا آتا، تو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ارشاد فرما دیتے، میں کہیں سے قرض لے کر اس کو کھانا کھلا دیتا۔ کوئی ننگا آتا، تو مجھے ارشاد فرما دیتے، میں کسی سے قرض لے کر اس کو کپڑا پہنا دیتا۔ یہ صورت ہوتی رہتی تھی۔

ایک مرتبہ ایک مشرک مجھے ملا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے وسعت اور ثروت حاصل ہے، تو کسی سے قرض نہ لیا کر۔ جب ضرورت ہوا کرے، مجھ ہی سے قرض لے لیا کر۔ میں نے کہا: اس سے بہتر کیا ہوگا؟ اس سے قرض لینا شروع کر دیا۔

جب ارشادِ عالی ہوتا، اس سے قرض لے آیا کرتا اور ارشاد والا کی تعمیل کر دیتا۔

ایک مرتبہ وضو کر کے اذان کہنے کے لیے کھڑا ہی ہوا تھا کہ وہی مشرک ایک جماعت کے ساتھ آیا اور کہنے لگا: او حبشی! میں اُدھر متوجہ ہوا، تو ایک دم بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور برا بھلا جو منہ میں آیا، کہا اور کہنے لگا کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں؟ میں نے کہا: قریب ختم کے ہے۔ کہنے لگا کہ چار دن باقی ہیں۔ اگر مہینہ کے ختم تک میرا سب قرضہ ادا نہ کیا، تو تجھے اپنے قرضہ میں غلام بناؤں گا اور اسی طرح بکریاں چراتا پھرےگا، جیسا پہلے تھا۔

یہ کہہ کر چلا گیا۔ مجھ پر دن بھر جو گذرنا چاہیے تھا، وہی گذرا۔ تمام دن رنج وصدمہ سوار رہا اور عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تنہائی میں حاضر ہوا اور سارا قصہ سنایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! نہ آپ کے پاس اس وقت ادا کرنے کو فوری انتظام ہے اور نہ کھڑے کھڑے میں کوئی انتظام کر سکتا ہوں۔ وہ ذلیل کرےگا؛ اس لیے اگر اجازت ہو، تو اتنے قرض اُترنے کا انتظام ہو، میں کہیں روپوش ہو جاؤں؟ جب آپ کے پاس کہیں سے کچھ آجائےگا، میں حاضر ہو جاؤں گا۔

یہ عرض کر کے میں گھر آیا۔ تلوار لی۔ ڈھال اٹھائی۔ جوتا اٹھایا۔ یہی سامانِ سفر تھا اور صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا کہ صبح کے قریب ہی کہیں چلا جاؤں گا۔

صبح قریب تھی کہ ایک صاحب دوڑے ہوئے آئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جلدی چلو۔ میں حاضرِ خدمت ہوا، تو دیکھا کہ چار اونٹنیاں، جن پر سامان لدا ہوا تھا، بیٹھی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوشی کی بات سناؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے قرضہ کی بے باقی کا انتظام فرما دیا۔ یہ اونٹنیاں بھی تیرے حوالے اور ان کا سب سامان بھی۔ فَدَک کے رئیس نے یہ نذرانہ مجھے بھیجا ہے۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور خوشی خوشی ان کو لے کر گیا اور سارا قرضہ ادا کر کے واپس آیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسجد میں انتظار فرماتے رہے۔ میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ حضور! اللہ کا شکر ہے۔ حق تعالیٰ نے سارے قرضہ سے آپ کو سبکدوش کر دیا اور اب کوئی چیز بھی قرضہ کی باقی نہیں رہی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سامان میں سے بھی کچھ باقی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! کچھ باقی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بھی تقسیم ہی کر دے؛ تاکہ مجھے راحت ہو جائے۔ میں گھر میں بھی اس وقت تک نہیں جانے کا؛ جب تک یہ تقسیم نہ ہو جائے۔

تمام دن گذر جانے کے بعد عشاء کی نماز سے فراغت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ وہ بچا ہوا مال تقسیم ہو گیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ موجود ہے۔ ضرورت مند آئے نہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں آرام فرمایا۔

دوسرے دن عشاء کے بعد پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو جی! کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ جل شانہ نے آپ کو راحت عطا فرمائی کہ وہ سب نمٹ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ جل جلالہ کی حمد وثنا فرمائی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ڈر ہوا کہ خدا نخواستہ موت آ جائے اور کچھ حصہ مال کا آپ کی ملک میں رہے۔

اس کے بعد گھروں میں تشریف لے گئے اور بیویوں سے ملے۔

ف: اللہ والوں کی یہ بھی خواہش رہتی ہے کہ ان کی ملک میں مال ومتاع کچھ نہ رہے۔ پھر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کیا پوچھنا، جو سارے نبیوں کے سردار، سارے اولیاء کے سرتاج؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خواہش کیوں نہ ہوتی کہ میں دُنیا سے بالکل فارغ ہو جاؤں۔

میں نے معتبر ذرائع سے سنا ہے کہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری نوّر اللہ مرقدہ کا معمول یہ تھا کہ جب نذرانوں کی رقم کچھ جمع ہو جاتی، تو اہتمام سے منگوا کر سب تقسیم فرما دیتے اور وِصال سے قبل تو اپنے پہننے کے کپڑے وغیرہ بھی اپنے خادمِ خاص حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب مدّ ظلہ کو دے دیے تھے اور فرمایا تھا کہ بس، اب تم سے مستعار لے کر پہن لیا کروں گا۔

اور اپنے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو میں نے بارہا دیکھا کہ مغرب کے بعد جو کوئی روپیہ پاس ہوتا، وہ کسی قرض خواہ کو دے دیتے کہ کئی ہزار کے مقروض تھے اور یہ فرمایا کرتے کہ جھگڑے کی چیز میں رات کو اپنے پاس نہیں رکھتا۔

اس نوع کے بہت سے حالات اکابر کے ہیں؛ مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر شیخ کا ایک ہی رنگ ہو۔ مشایخ کے الوان مختلف ہوتے ہیں اور چمن کے پھولوں میں ہر پھول کی صورت، سیرت ممتاز ہوتی ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۶۰-۶۲)

Check Also

فضائلِ صدقات – ۲۳

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی سخاوت ایک شخص نے حضرت عبد …