اتباع سنت کا اہتمام – ۱۱

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط چہارم

اپنے بھتیجے کے لیے رعایت

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

مولوی شبیر علی سے بڑھ کر میرا کس پر زور ہوگا۔ میری اولاد ہیں، بھتیجے ہیں اور بچپن سے ہی میرے پاس رہے ہیں؛ لیکن میں ان کی بھی اتنی رعایت کرتا ہوں کہ جب کبھی مجھ کو ان سے کچھ کہنا ہوتا ہے، تو ان کو اپنے پاس نہیں بلاتا کہ نہ معلوم کسی ضروری کام میں مشغول ہوں؛ بلکہ میں خود ہی اٹھ کر ان کے پاس جاتا ہوں۔

یہاں تک کہ اگر وہ خود کسی کام سے میرے پاس آئے ہوئے ہوتے ہیں اور مجھے بھی ان سے کچھ کہنا ہوتا ہے، تو میں اس وقت ان سے کچھ نہیں کہتا؛ بلکہ جب وہ اپنی جگہ واپس پہنچ جاتے ہیں، تب ان کے پاس جا کر جو بات کہنی ہوتی ہے، کہتا ہوں؛ تاکہ جب وہ میرے پاس کسی ضرورت سے آیا کریں، تو آزادی سے آیا کریں۔

اس کا خطرہ بھی نہ ہو کہ اگر میں وہاں جاؤں گا، تو میرے ذمہ کوئی نہ کوئی کام لگا دیا جائےگا۔ (سیرتِ اشرف، ص ۳۷۳)

میزبان کے نوکر کے لیے رعایت

خواجہ عزیز الحسن صاحب لکھتے ہیں:

ایک بار احقر کے یہاں (یعنی میرے یہاں) حضرت (یعنی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ) کی دعوت تھی۔ حضرت کے ایک عزیز (یعنی رشتہ دار) نے نوکر سے پانی اس طرح مانگا کہ پانی لاؤ۔

حضرت نے فوراً تنبیہ فرمائی کہ میزبان کے نوکر سے ایسے حاکمانہ لہجہ میں پانی نہیں مانگنا چاہیئے؛ بلکہ اخلاق کے ساتھ کہنا چاہیئے کہ تھوڑا پانی عنایت کیجیئے۔ (سیرتِ اشرف، ص ۳۷۴)

اپنے بھائیوں کے لیے رعایت

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

بفضلہ تعالیٰ جیسا ہم سب بھائیوں میں اتفاق ہے، ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب علیحدہ علیحدہ ہیں۔ کسی کا کوئی بار (یعنی بوجھ) دوسرے پر نہیں۔

حتی کہ میں نے تو اس کی یہاں تک رعایت کی ہے کہ حتی الامکان بھائیوں سے کوئی چیز عاریتًہ بھی نہیں لیتا؛ بلکہ اگر وہ چیز کرایہ کی ہوئی، تو کرایہ پر لیتا ہوں؛ چنانچہ جب تک ریل نہ تھی، اس وقت جب کبھی گاڑی کی ضرورت ہوتی، تو اپنے بھائی کی گاڑی بھی کرایہ پر لیتا تھا۔

اس کا نفع یہ تھا کہ اگر کبھی ان کو خود ضرورت ہوتی، تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ اس وقت گاڑی خالی نہیں ہے؛ کیونکہ جانتے تھے کہ اس سے بھائی کا کوئی نقصان نہ ہوگا؛ کیونکہ کرایہ ہر حال میں دینا ہوگا۔ اگر میں عاریتًہ لیتا، تو ہرگز وہ اس صفائی سے نہ کہہ سکتے اور اس سے طبیعت پر گرانی ہوتی۔

اسی طرح میں اپنے بھائی کے نوکروں سے بھی کوئی کام نہیں لیتا کہ ممکن ہے، کبھی تنگ دلی پیدا ہو۔ نیز جلانے کی لکڑی کہ جس کی حقیقت نہیں۔ ایک بار ان کے یہاں بہت بچ گئیں۔ میں نے وہ بھی بہ قیمت لیں؛ کیونکہ اس سے مفت خوری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آج لکڑیاں آئیں۔ کل پیاز آئےگی۔ پَرسُوں ترکاری آئےگی۔ وقس علی ہذا (سیرتِ اشرف، ص ۳۷۴-۳۷۵)

دوسرے کو تکلیف نہ دینا

ایک مرتبہ ایک غیر مقلد کسی کام کے سلسلہ میں حضرت تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ واپس جا کر انہوں نے اپنے مشاہدہ کی بنا پر اپنے ایک ملنے والے سے کہا کہ ہم لوگوں میں اتباعِ سنت کا فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ اتباعِ سنت تو ہم نے وہاں دیکھا۔ ایک کتاب کی ضرورت ہوئی، تو خود اٹھ کر کتب خانہ سے لائے۔ کسی سے نہیں کہا کہ لے آؤ۔ اپنا کام خود کیا کہ دوسرے کو تکلیف نہ دی۔ (سیرتِ اشرف، ص ۳۷۲)

گھر میں جو چیز اٹھاتا ہوں، بعد فراغت اس کو وہیں جا کر رکھتا ہوں، جہاں وہ رکھی تھی؛ تاکہ جس نے رکھی ہے، وہ پریشان نہ ہو اور اس کو ڈھونڈھنا نہ پڑے۔

گھر میں رات کو سوتے وقت احتیاطاً لوٹا میں پانی بھر کر رکھ لیتی ہیں۔ اگر کبھی مجھے پانی کے استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے، تو میں پھر لوٹا کو بھی اسی جگہ رکھ دیتا ہوں؛ تاکہ اگر ان کو ضرورت ہو، تو لوٹا بھرا ہوا ہی ملے۔ دوبارہ ان کو نہ بھرنا پڑے۔ (سیرتِ اشرف ص ۳۷۲-۳۷۳)

Check Also

علامات قیامت – بارہویں قسط‎ ‎

حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں اور ان کا …