فضائلِ اعمال – ۲۸

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیت المال سے وظیفہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ بنائے گئے، تو بیت المال سے وظیفہ مقرر ہوا۔

مدینہ طیبہ میں لوگوں کو جمع فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں تجارت کرتا تھا۔ اب تم لوگوں نے اس میں مشغول کر دیا؛ اس لیے اب گذارہ کی کیا صورت ہو؟ لوگوں نے مختلف مقداریں تجویز کیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ چپ بیٹھے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کر تمہاری کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا کہ توسّط کے ساتھ جو تمھیں اور تمہارے گھر والوں کو کافی ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور قبول کر لیا اور متوسط مقدار تجویز ہو گئی۔

اس کے بعد ایک مرتبہ ایک مجلس میں، جس میں خود حضرت علی بھی تھے اور حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم شریک تھے، یہ ذکر آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وظیفہ میں اضافہ کرنا چاہیئے کہ گذر میں تنگی ہوتی ہے؛ مگر اُن سے عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

اس لیے ان کی صاحب زادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونے کی وجہ سے اُم المؤمنین بھی تھیں، ان کی خدمت میں یہ حضرات تشریف لے گئے اور ان کے ذریعہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجازت اور رائے معلوم کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہم لوگوں کے نام معلوم نہ ہوں۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا، تو چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نام دریافت کیے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ پہلے آپ کی رائے معلوم ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ مجھے ان کے نام معلوم ہو جاتے، تو ان کے چہرے بدل دیتا یعنی ایسی سزائیں دیتا کہ منہ پر نشان پڑ جاتے۔

تُو ہی بتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمدہ سے عمدہ لباس تیرے گھر میں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ دو کپڑے گیروی رنگ کے، جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن یا کسی وفد کی وجہ سے پہنتے تھے۔

پھر فرمایا کہ کون سا کھانا تیرے یہاں عمدہ سے عمدہ کھایا؟ عرض کیا کہ ہمارا کھانا جَو کی روٹی تھی۔ ہم نے گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبہ کی تلچھٹ اُلٹ کر اس کو ایک مرتبہ چُپڑ دیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کو مزے لے کر نوش فرما رہے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔

فرمایا: کون سا بسترہ عمدہ ہوتا تھا، جو تیرے یہاں بچھاتے تھے؟ عرض کیا: ایک موٹا سا کپڑا تھا۔ گرمی میں اس کو چوہرا کر کے بچھا لیتے تھے اور سردی میں آدھے کو بچھا لیتے اور آدھے کو اوڑھ لیتے۔

فرمایا: حفصہ! ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے ایک اندازہ مقرر فرما دیا اور اُمید (آخرت) پر کفایت فرمائی۔ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کروں گا۔

میری مثال اور میرے دو ساتھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مثال ان تین شخصوں کی سی ہے، جو ایک راستہ پر چلے۔ پہلا شخص ایک توشہ لے کر چلا اور مقصد کو پہنچ گیا۔ دوسرے نے بھی پہلے کا اتباع کیا اور اسی کے طریقہ پر چلا۔ وہ بھی پہلے کے پاس پہنچ گیا۔ پھر تیسرے شخص نے چلنا شروع کیا۔ اگر وہ ان دونوں کے طریقہ پر چلےگا، تو ان کے ساتھ مل جائےگا اور اگر ان کے طریقہ کے خلاف چلےگا، تو کبھی بھی ان کے ساتھ نہیں مل سکےگا۔

ف: یہ اس شخص کا حال ہے، جس سے دنیا کے بادشاہ ڈرتے تھے، کانپتے تھے کہ کس زاہدانہ زندگی کے ساتھ عمر گذار دی۔

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھ رہے تھے اور آپ کی لنگی میں بارہ پیوند تھے، جن میں سے ایک چمڑہ کا بھی تھا۔

ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے لیے تشریف لانے میں دیر ہوئی، تو تشریف لا کر معذرت فرمائی کہ مجھے اپنے کپڑے دھونے میں دیر ہوئی اور ان کپڑوں کے علاوہ اور تھے نہیں۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھانا نوش فرما رہے تھے۔ غلام نے آ کر عرض کیا کہ عُتبہ بن ابی فَرقہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ہیں۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت فرمائی اور کھانے کی تواضع فرمائی۔ وہ شریک ہو گئے، تو ایسا موٹا کھانا تھا کہ نگلا نہ گیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ چھنے ہوئے آٹے کا کھانا بھی تَو ہو سکتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا سب مسلمان میدہ کھا سکتے ہیں؟ عرض کیا کہ سب تَو نہیں کھا سکتے۔ فرمایا کہ افسوس! تم یہ چاہتے ہو کہ میں اپنی ساری لذتیں دنیا ہی میں ختم کر دوں۔

اس قسم کے سینکڑوں، ہزاروں نہیں؛ بلکہ لاکھوں واقعات ان حضرات کرام کے ہیں۔ ان کا اتباع نہ اب ہو سکتا ہے، نہ ہر شخص کو کرنا چاہیئے کہ قُوی ضعیف ہیں، جس کی وجہ سے تحمّل بھی ان کا اس زمانہ میں دُشوار ہے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں مشایخِ تصوف ایسے مُجاہَدوں کی اجازت نہیں دیتے، جن سے ضعف پیدا ہو کہ قوّتیں پہلے ہی سے ضعیف ہیں۔ ان حضرات کو اللہ جل شانہ نے قوّتیں بھی عطا فرمائی تھیں۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ اتباع کی خواہش اور تمنا ضرور رکھنا چاہیئے کہ اس کی وجہ سے آرام طلبی میں کچھ کمی واقع ہو اور نگاہ کچھ تَو نیچی رہے اور اس زمانہ کے مناسب اعتدال پیدا ہو جائے کہ ہم لوگ ہر وقت لذاتِ دنیا میں بڑھتے جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے سے زیادہ مال ودولت والے کی طرف نگاہ رکھتا ہے اور اس حسرت میں مرا جاتا ہے کہ فلاں شخص مجھ سے زیادہ وسعت میں ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۵۸-۶۰)

Check Also

فضائلِ صدقات – ۲۲

ایک درخت کے بدلہ میں جنت میں کھجور کا درخت ملنا حضرت عبد اللہ بن …