امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – گیارویں قسط

دین میں بدعتیں

انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کے دو بنیادی پھندے ہیں۔ وہ مال اور عورت ہیں۔ یہ دونوں پھندے انتہائی تباہ کن ہیں اور دنیا میں جتنے گناہ ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر وبیشتر انہی دونوں پھندوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے (یعنی بڑی دلکش ہے) اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا میں خلیفہ مقرر کیا ہے؛ تاکہ وہ دنیا میں تمہارے طرزِ عمل اور سلوک کو دیکھیں؛ لہذا دنیا کے فتنے (یعنی مال ودولت کے فتنے) اور عورتوں کے فتنے سے بچو؛ کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کا فتنہ تھا۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۲۷۴۲)

مال اور عورت کے علاوہ ایک اور مہلک پھندا، جس سے شیطان بہت سے لوگوں کے دین وایمان کو تباہ وبرباد کرتا ہے، وہ بدعت کا پھندا ہے۔

ایک ایسا گناہ جس سے لوگ توبہ نہیں کرتے

جب شیطان کو معلوم ہوا کہ توبہ کا دروازہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اولاد کے لیے ان کی زندگی کے آخری دن تک کھلا ہے اور اس نے محسوس کیا کہ انسان کو گمراہ کرنے کی اس کی عمر بھر کی کوشش چند سیکنڈ میں رائیگاں ہو جائے گی یعنی جیسے ہی  ایک مومن  اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کے آنسو بہائے گا ، اس کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ، تو اس نے  لوگوں کو توبہ سے باز رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ۔ شیطان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ لوگوں کو ایسے کاموں پر آمادہ کرے گا ، جو حرام ہوں گے، لیکن وہ انہیں حرام نہیں سمجھیں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ  وہ اللہ تعالٰی کے سامنے توبہ و استغفار نہیں کریں گے۔

وہ ان کو بدعتوں اور اسی طرح کے دوسرے خلاف شرع امور میں مبتلا کر دے گا ، جن کو  وہ ان کے سامنے خوبصورت بناکر پیش کرے  گا، یہاں تک کہ وہ اپنی غلط باتوں کو درست ثابت کرنے لگیں گےاور گناہوں کو گناہ نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار نہیں کریں گے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ اور استغفار کو مضبوطی سے پکڑو اور ان میں کثرت سے  مشغول رہو، کیوں کہ ابلیس کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں میں ملوث کر کے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے لا الہ الا اللہ کے ورد اور استغفار کے ذریعے تباہ کیا۔

 جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے ان کو ان کی خواہشات کے پیچھے لگا کر  تباہ کر دیا (یعنی بدعات و خرافات ، جن کو  وہ جائز قرار دیتے ہیں )۔ چناں چہ وہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں (اس لیے ان کو  استغفار کی توفیق نہیں ملتی )۔

 ابلیس کا مکر

 امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابلیس نے اپنے لشکروں سے کہا کہ تم انسان کو گمراہ کرنے کے لیے کس چیز کا  استعمال کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا، “ہم اس پر حملہ کرنے کے لیے ہر ممکن چیز  استعمال کریں گے۔  ابلیس نے پھر پوچھا کہ کیا تم انہیں استغفار کی کثرت سے روک سکو گے؟ انہوں نے جواب دیا :  یہ بہت مشکل ہے! یہ توحید سے متعلق چیز ہے!

 ابلیس نے پھر ایک تدبیر سوچی اور کہا کہ یقیناً میں ان میں کچھ ایسے گناہوں کو عام کروں گا ، جن پر وہ نادم نہیں ہوں گے اوراللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد ابلیس نے انہیں ان کاموں میں مبتلا کر دیا، جنہیں انہوں نے اپنی خواہشات کی وجہ سے جائز قرار دیا تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے بہت سے حرام اعمال و افعال عام ہو جائیں گے۔ لوگ ان چیزوں کو جائز قرار دیں گے اور انہیں دین میں گناہ اور جرم نہیں سمجھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ وہ ان امور کو انجام دیں گے اور توبہ نہیں کریں گے، کیوں کہ وہ انہیں عام رسم و رواج یا معاشرے کا طرز و طریقہ سمجھیں گے۔ ان گناہوں میں مرد و عورت کا آپس میں اختلاط ، تصویرکشی ، خواتین کا بغیر کسی معقول وجہ کے دکانوں وغیرہ میں کام کرنا  اور مردوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنا شامل ہیں۔

 اسی طرح  جب ہم بہت سے کاروباری طریقوں کا  باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں ، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفار کے  سودی نظام کے  مشابہ ہیں، اگرچہ ان کی شکلیں مختلف ہیں۔ یہ ساری چیزیں شیطان کی سازش کا حصہ ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے پیشین گوئی کردی تھی کہ قیامت کے آخری دور میں شیطان کی تمام سازشیں  عملی طور پر ظاہر ہوجائیں گی ۔  چناں چہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے میرے صحابہ! میری امت کا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان کھلم کھلا گناہ کریں گے اور تمہاری عورتیں حد سے گزر جائیں گی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیاکہ کیا امت پر ایسا وقت آئے گا؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے صحابہ! میری امت کا کیا حال ہوگا جب تم نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چھوڑ دو گے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا امت پر ایسا وقت آئے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر۔

پھر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے صحابہ! اس وقت میری امت کا کیا حال ہوگا جب تم غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط سمجھوگے۔

Check Also

علامات قیامت – گیارویں قسط ‏

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے دور میں خیر وبرکت اور عدل وانصاف حضرت مہدی …