ایک درخت کے بدلہ میں جنت میں کھجور کا درخت ملنا
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے مکان میں ایک کھجور کا درخت کھڑا تھا، جس کی شاخ پڑوسی کے مکان پر بھی لٹک رہی تھی۔ وہ پڑوسی غریب آدمی تھا۔
جب یہ شخص اپنے درخت پر کھجوریں توڑنے کے لیے چڑھتا، تو حرکت سے کچھ کھجور میں پڑوسی کے مکان میں بھی گر جایا کرتیں، جن کو اس کے غریب بچے اٹھا لیا کرتے۔ یہ شخص درخت پر سے اُترتا اور پڑوسی کے مکان پر جا کر ان بچوں کے ہاتھ میں سے کھجوریں چھین لیتا؛ حتی کہ ان کے منہ سے بھی انگلی ڈال کر نکال لیا کرتا۔
اس فقیر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ اچھا! جاؤ۔ اس کے بعد کھجور کے مالک سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا فلاں کھجور کا درخت، جو فلاں شخص کے گھر میں جھک رہا ہے، وہ تم مجھے اس وعدہ پر دیتے ہو کہ تمہیں اس کے بدلہ میں جنت میں کھجور کا درخت مل جائے؟
اس نے عرض کیا کہ حضور! اس کے اور لوگ بھی خریدار ہوئے اور میرے پاس اور بھی درخت ہیں؛ مگر اس کی کھجوریں مجھے بہت پسند ہیں؛ اس لیے میں نے فروخت نہیں کیا اور یہ کہہ کر اس کے دینے سے عذر کر دیا۔ (مالک تو بہر حال وہی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا)۔
ایک تیسرے صاحب بھی اس گفتگو کو سن رہے تھے۔ انہوں نے اس کے جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر وہ درخت میں لے کر پیش کر دوں، تو میرے لیے بھی وہی وعدہ جنّت میں کھجور کے درخت کا ہے، جو حضور نے اس سے فرمایا تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے بھی وہی وعدہ ہے۔
یہ صاحب اٹھے اور اس مالکِ درخت کے پاس جا کر کہا کہ میرے پاس بھی کھجور کا باغ ہے۔ تم اپنے اس درخت کو کسی قیمت پر بیچ سکتے ہو؟
اس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جنت میں درخت کا وعدہ کیا تھا، میں نے اس پر بھی نہیں دیا۔ یہ درخت مجھے بہت پسند ہے۔ میں اس کو بیچ تو سکتا ہوں؛ مگر جتنی قیمت میں چاہتا ہوں، اتنی کوئی دےگا نہیں۔
اس نے پوچھا کہ کتنی قیمت چاہیے؟ اس نے کہا کہ چالیس درختوں کے بدلہ میں بیچ سکتا ہوں۔ اس شخص نے کہا: ایک ٹیڑھے درخت کی قیمت چالیس درخت بہت زیادہ ہے! اچھا! اگر میں چالیس درخت اس کے بدلہ میں دوں، تو تُو بیچ دےگا؟
صاحبِ درخت نے کہا: اگر تُو اپنی بات میں سچا ہے، تو قسم کھا کہ میں نے چالیس درخت ایک درخت کے بدلہ میں دے دیے۔ ان صاحب نے قسم کھالی کہ میں نے چالیس درخت اس ٹیڑھے درخت کے بدلہ میں دے دیے۔
اس کے بعد وہ صاحبِ درخت پھر گیا کہ میں فروخت نہیں کرتا۔ ان صاحب نے کہا کہ اب تُو ہرگز انکار نہیں کر سکتا۔ تیرے کہنے پر میں نے قسم کھائی ہے۔ اس نے کہا کہ اچھا! اس شرط پر کہ سب کے سب ایک ہی جگہ ہوں۔ انہوں نے تھوڑی دیر سوچ کر اس کا بھی وعدہ کر لیا کہ سب ایک ہی جگہ ہوں گے۔
بات پختہ کر کے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حضور! وہ درخت میں نے خرید لیا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس فقیر کے مکان پر تشریف لے گئے اور وہ درخت اس فقیر کو مرحمت فرما دیا۔ اس کے بعد سورۂ واللّیل نازل ہوئی۔ (فضائلِ صدقات، ص ۷۰۰-۷۰۲)