باغ محبت (سنتیسویں قسط)

عفو ودرگزر کرنے والا دل

حضرت وائل بن حجر رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ایک مشہور صحابی تھے۔ وہ ملکِ یمن کے رہنے والے تھے اور بادشاہوں کی نسل سے تھے۔ روایت میں آیا ہے کہ جب وہ یمن سے مدینہ منورہ اسلام قبول کرنے کے لیے روانہ ہوئے، تو ان کی آمد سے قبل ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو ان کی آمد کی اطلاع دی تھی۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے فرمایا: ایک شخص ہے، جو یمن کے شہر حضرموت سے مدینہ منورہ پہنچنے والا ہے۔ وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آ رہا ہے اور وہ بادشاہوں کی نسل سے ہے۔ اس کا نام وائل بن حجر ہے۔

جب وہ پہنچے، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کا استقبال واکرام کیا اور ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی۔ نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے خصوصی دعا فرمائی کہ اے الله! وائل، اس کی اولاد، اس کے پوتوں اور نواسوں میں برکت پیدا فرما۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اہلِ یمن کے لیے اپنا نائب مقرر کیا۔

مدینہ منورہ سے روانہ ہونے سے قبل انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کو یمن میں ایک زمین دے دیں۔ ان کی درخواست پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں یمن میں ایک زمین دے دی اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ یمن چلے جائیں؛ تاکہ حد بندی کر کے زمین ان کے حوالے کر دیں۔

چناں چہ حضرت وائل رضی الله عنہ اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ ایک ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ حضرت وائل رضی الله عنہ گھوڑے پر سفر کر رہے تھے اور حضرت معاویہ رضی الله عنہ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت معاویہ رضی الله عنہ اتنے تنگ دست تھے کہ ان کے پاس جوتے بھی نہیں تھے۔

ریگستان سے گزرتے ہوئے گرم ریت کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے پیر جلنے لگے۔ آخرکار جب ان کے لیے تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی، تو وہ حضرت وائل رضی الله عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھ جاؤں؛ کیوں کہ گرم ریت کی وجہ سے میرے پاؤں جل رہے ہیں اور میرے لیے چلنا مشکل ہو رہا ہے؛ تاہم حضرت وائل رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ تم اس بات کے لائق نہیں ہو کہ تم بادشاہوں کے ساتھ ان کے پیچھے ان کی سواری پر بیٹھو۔

پھر حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے ان سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنے جوتے بطور عاریت دے دیں؛ تاکہ میں اس کو پہن کر چل سکوں؛ لیکن حضرت وائل رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ میں آپ کو اپنے جوتے نہیں دے سکتا؛ لیکن اگر آپ چاہیں، تو میرے گھوڑے کے سائے میں چل سکتے ہیں۔ یہ جواب سن کر حضرت معاویہ رضی الله عنہ خاموش ہو گئے اور ننگے پاؤں چلتے رہے۔

مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سفر کے دوران کا واقعہ بتایا اور حضرت وائل رضی الله عنہ کی بد سلوکی سے آگاہ کیا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے، اس لیے اس میں ابھی تک جاہلیت کی کچھ خصلتیں باقی ہیں۔ اس نے تمہارے ساتھ جو بھی سلوک کیا ہے، اسے نظر انداز کرو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

حضرت وائل رضی الله عنہ نئے مسلمان تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بابرکت صحبت میں صرف چند دن گزارے تھے؛ اس لیے ان کی زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنتیں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس طرح کا سلوک کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ؛ لیکن بعد میں وہ صلاح وتقویٰ کے اعلی مقام پر پہنچ گئے تھے۔

اُس وقت حضرت معاویہ رضی الله عنہ انتہائی خستہ حال تھے؛ مگر الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک ایسا وقت آیا کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ دنیا پر حکمرانی کرنے لگے؛ چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ، پھر حضرت عثمان رضی الله عنہ اور پھر حضرت علی رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے۔ آخرکار وہ وقت آیا کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔

جب حضرت وائل رضی الله عنہ کو حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے خلیفہ بننے کا علم ہوا، تو ان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ جب حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی، تو شہر کے مضافات میں ان کے استقبال کے لیے تشریف لائے۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے ان کا خوب اعزاز واکرام کیا اور انہیں اپنے ساتھ اپنی جگہ پر بٹھایا اور بہت سے تحائف اور ہدایا پیش کئے۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے پھر ان سے کہا: کیا آپ کو وہ دن یاد ہے، جب ہم ایک ساتھ سفر کر رہے تھے؟ جب حضرت وائل رضی الله عنہ کو وہ واقعہ یاد آیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ اس کے باوجود ان کے ساتھ خوب اعزاز واکرام کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں، تو انہیں اپنے گزشتہ طرز عمل پر بڑی ندامت محسوس ہوئی۔

چناں چہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے سامنے اپنی ندامت ظاہر کی اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اے امیر المومنین! اُس وقت میں ایک نیا مسلمان تھا، جو کفر وجاہلیت سے نکلا تھا! اب الله تعالیٰ نے ہمیں اسلام سے نوازا ہے۔ اُس وقت میں نے اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے مطابق آپ کے ساتھ سلوک نہیں کیا تھا۔

بعد میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت وائل رضی الله عنہ نے فرمایا کہ کاش کہ اس وقت میں انہیں اپنے سامنے سواری پر بٹھاتا۔ (من مسند أحمد، الرقم: ٢٧٢٣٩، سنن الترمذي، الرقم: ١٣٨١، البداية والنهاية ٧/٣٣٠، تاريخ دمشق ٦٢/٣٨٦)

اس واقعہ سے واضح ہے کہ حضرت وائل رضی الله عنہ نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا؛ اس کے باوجود حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے دل میں ان کے لیے کسی قسم کی کوئی رنجش یا کدورت نہیں تھی؛ بل کہ ان کے ساتھ بڑی عزت ومحبت اور مہربانی سے پیش آئے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس نصیحت پر عمل کیا کہ وہ حضرت وائل رضی الله عنہ کی غلطی کو نظر انداز کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔

یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت مبارکہ تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمیشہ لوگوں کی غلطیوں کو درگزر کرتے تھے اور تکلیف پہنچانے والوں کو معاف کر دیتے تھے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو لوگوں کی غلطیوں کو درگزر کرنے اور ان کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مطابق معاملہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۱

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط سوم خواتین کے ساتھ احتیاط …