کبھی بھی کسی بھی شخص کی اصلاح سے مایوس نہ ہونا
عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مایہ ناز محدث تھے۔ وہ بہت سے نامور محدثین کے استاذ تھے، جیسے کہ امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہم۔
ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آغاز میں بُرے لوگوں کی صحبت میں رہتے تھے اور شراب نوشی کرتے تھے؛ تاہم ایک عظیم محدث اور اللہ کے ولی: امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق قائم کرنے کے بعد ان کی زندگی پورے طور پر بدل گئی اور وہ اسلام کی عظیم شخصیات اور مشائخ میں شامل ہو گئے۔
ذیل میں ان کا وہ واقعہ نقل کیا جا رہا ہے، جو ان کی توبہ اور اصلاح کا باعث بنا:
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے دوستوں کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے دیکھا کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے گدھے پر سوار ان کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، جو ان کے گدھے کے پیچھے چل رہے تھے؛ تاکہ وہ ان کی باتوں اور صحبت سے مستفیض ہو سکے۔
جب حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ نے امام شعبہ رحمہ اللہ اور ان کے اردگرد بہت سے لوگوں کو دیکھا، تو انہوں نے وہاں کسی موجود شخص سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: وہ امام شعبہ رحمہ اللہ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ نے پھر پوچھا: ان کا مشغلہ کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ایک محدث ہیں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے والے ہیں)۔
یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمۃ اللہ علیہ، جو اس وقت سرخ رنگ کی لنگی پہنے ہوئے تھے، کھڑے ہوئے اور امام شعبہ رحمہ اللہ سے ملنے کے لیے آگے بڑھے۔
جب وہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچے، تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھ سے ایک حدیث بیان کرو۔
امام شعبہ نے حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ کی ظاہری شکل کو دیکھ کر محسوس کیا کہ یہ شخص دین کا پابند نہیں ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ سے احادیث کیسے بیان کروں؛ جب کہ آپ حدیث کے اہل نہیں ہیں! (یعنی آپ کا لباس مناسب نہیں ہے اور آپ نے ان لوگوں کے آداب کو نہیں اپنایا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں)۔
حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ نے جب یہ سنا، تو غصے میں آ گئے۔ انہوں نے اپنی چھری نکالی اور امام شعبہ رحمہ اللہ کو دھمکی دی کہ یا تو ابھی مجھ سے حدیث بیان کرو؛ ورنہ میں تم پر حملہ کردوں گا۔
لہذا امام شعبہ رحمہ اللہ نے بیان کرنا شروع کیا: منصور ربیع سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں حیا (شرم) نہ ہو، تو جو چاہو، کرو (یعنی جب کوئی حیا سے محروم ہو جاتا ہے، تو اس کے اندر کوئی عزت اور وقار باقی نہیں رہتا ہے اور وہ ہر قسم کا گناہ کر سکتا ہے)۔
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کا عملی نمونہ تھے؛ چناں چہ جب ان کے دل سے یہ الفاظ نکلے، تو حضرت عبد اللہ بن مسلمہ رحمہ اللہ کے دل پر ان کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ فوراً نادم وشرمندہ ہوئے اور اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کی، پھر انہوں نے اپنی چھری زمین پر پھینک دی، گھر واپس آئے اور پوری شراب پھینک دی۔
اس کے بعد انہوں نے اپنی ماں سے کہا: میرے دوست ابھی آئیں گے۔ جب وہ آئیں، تو ان کو اندر آنے کی اجازت دیں اور ان کو کھانا کھلائیں۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہو جائیں، تو انہیں بتا دیں کہ میں نے اپنی زندگی بدل لی ہے اور میں نے پوری شراب پھینک دی ہے۔
اس کے بعد وہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے؛ تاکہ وہ اپنی زندگی بدل دیں اور اس دور کے عظیم امام: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کا علم حاصل کریں۔ وہ امام مالک رحمہ اللہ کی صحبت میں رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین کی دولت سے نوازا اور وہ علمِ حدیث میں امامت کے مرتبہ پر فائز ہو گئے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی شخص کی اصلاح سے ناامید نہیں ہونا چاہیئے۔
بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کی زندگی گناہوں میں گزر رہی تھی، پھر انہوں نے اللہ تعالٰی کے سامنے سچی توبہ کی اور اللہ والوں کی صحبت میں رہنے لگے۔
آخر کار ان اللہ والوں کی صحبت میں رہنے کی برکت سے ان کی زندگی درست ہو گئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے تقویٰ وللہیت اور قبولیت سے نوازا کہ وہ امت کے لیے نمونہ عمل بن گئے۔