رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم – امت کے روحانی طبیب
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے سامنے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اور اس کے معانی واحکام سکھانے کا فریضہ سونپا گیا تھا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی تھی کہ آپ امت کو اچھے اخلاق وعادات کی تعلیم دیں، ان کے برے اعمال وعادات کی اصلاح کریں اور ان کو برائیوں اور روحانی بیماریوں سے پاک کریں۔
امت کو برائیوں اور بری عادتوں سے پاک کرنا بہت ضروری اور اہم ہے؛ کیوں کہ یہ ان کے لیے دین پر ثابت قدم رہنے کا ذریعہ ہے۔
یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان گناہوں اور معصیتوں میں مبتلا رہےگا، دین کا حقیقی نور اس کے دل اور زندگی میں داخل نہیں ہوگا؛ چناں چہ اس کے اندر نیک کاموں کا جذبہ اور شوق پیدا نہیں ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں؛ بل کہ مال ودولت اور دنیاوی لذتوں کی محبت اسے اس حد تک لے جا سکتی ہے کہ وہ دنیوی مفادات حاصل کرنے کی خاطر شریعت کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرےگا۔ بسا اوقات وہ اس حد تک پہنچےگا کہ وہ اپنے ذاتی ایجنڈے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی غلط تشریح کرےگا۔
اس لیے اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے لیے روحانی طبیب بنا کر مبعوث فرمایا؛ تاکہ آپ ان کی تمام روحانی بیماریوں اور برائیوں کا علاج کریں اور انہیں تمام رذائل اور بری عادتوں سے پاک کریں؛ کیوں کہ امت کی بری خصلتوں اور عادتوں کی اصلاح ان کو دین پر ثابت قدم رکھنے کا طریقہ اور دین کو تحریف وتغییر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں سے ڈرتا ہوں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کیا ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) عالم کی لغزش (۲) انسان کی (خلافِ شرع) خواہشات، جن پر وہ عمل کرتا ہے (۳) ظالم حکمراں کا فیصلہ۔ (مجمع الزوائد، الرقم: ۸۸۳)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کا ذکر کیا ہے، جن کا آپ کو اپنی امت کے بارے میں بہت خوف تھا۔
پہلی چیز
پہلی چیز جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں بہت خوف تھا، وہ عالم کی لغزش ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر کوئی عالم دینی امور میں غلطیاں کرےگا، تو لوگ اس سے دین کا غلط علم سیکھیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دین پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کریں گے۔
اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کی لغزش کا بہت زیادہ ڈر تھا؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے دین میں تحریف آئےگی؛ چناں چہ اس سے سنتیں زندہ ہونے اور پھیلنے کے بجائے بدعتیں وجود میں آئیں گی اور لوگوں میں پھیل جائیں گی۔
دوسری چیز
دوسری چیز جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں بہت زیادہ خوف تھا، وہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی پیروی کر کے شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔
ظاہر ہے کہ اگر انسان اپنی خواہشات کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین بنا لےگا، تو وہ اپنی خواہشات کی اتباع کی خاطر شریعت کے تمام حدود کو توڑنے کے لیے تیار ہو جائےگا؛ لہٰذا اگر اس کی خواہشات اسے دولت کے حصول کے لیے شریعت کے حکم کو توڑنے کا حکم دیں گی، تو وہ شریعت کے حکم کو توڑنے سے دریغ نہیں کرےگا۔
انسان کا اپنی خواہشات کی پیروی کرنا صرف اس کی روحانی اور دینی ترقی کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا ہے؛ بل کہ وہ دوسروں کی روحانی اور دینی ترقی کے لیے بھی تباہ کن ہوتا ہے؛ چناں چہ اگر وہ کسی بڑے عہدے پر ہے، تو وہ شہرت یا دولت حاصل کرنے کے لیے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرےگا۔ بسا اوقات اس کے فیصلے دینی فائدے کے بجائے ذاتی مفاد یا مالی فائدے کے لیے ہوں گے۔
تیسری چیز
تیسری چیز جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں بہت زیادہ خوف تھا، وہ ظالم حکمراں کا فیصلہ ہے۔
اگر کوئی حکمران اپنے فیصلے میں نا انصافی اور ظلم کرےگا، تو اس کا خَمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑےگا۔
امت کے دین ودنیا کی بھلائی حاکم کے فیصلے پر موقوف ہے؛ کیوں کہ اس کا فیصلہ لوگوں کی دینی ترقی تباہ کر سکتا ہے، اسی طرح وہ ان کی دنیاوی حیثیت پر بھی اثر کر سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا تینوں امور کا خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے دین کے لیے تباہی وبربادی کا باعث ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روحانی طبیب بنا کر بھیجا؛ تاکہ آپ لوگوں کی نفسانی بیماریوں کا علاج کریں اور ان کی روحانیت کو زندہ کریں۔
جب امت روحانی طور پر زندہ ہو جائےگی، تو ان کے اندر دین پر عمل کرنے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوگا اور ان کو ان کی آنے والی نسلوں تک دین پہنچانے کی فکر ہوگی؛ لہٰذا امت کو برائیوں اور منکرات سے پاک کرنا دین قائم کرنے اور اس کی حفاظت کا ایک حصہ ہے، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکلف بنایا گیا تھا۔
لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے اخلاق کو سنواریں اور اپنی زندگی کو درست کرنے کی فکر کریں؛ تاکہ ہم لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا سکیں اور ان کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔
ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم ظاہری طور پر ان کی اصلاح کر رہے ہیں اور اندرونی طور پر ان کو حقیر سمجھ رہے ہیں؛ کیوں کہ ایسا کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گنہگار قرار سمجھے جائیں گے۔
اسی طرح لوگوں کی اصلاح کے وقت ہماری نیت درست ہونی چاہیئے۔ ہمارا مقصد کسی کو رسوا کرنا یا لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی یا اپنے علم کا اظہار کرنا نہ ہو؛ کیوں کہ یہ ہمارے لیے آخرت میں عذاب کا باعث بنےگا۔