بچوں کی تجہیز و تکفین کے مسائل

(۱) قریب البلوغ لڑکی اور لڑکے کی تجہیز و تکفین بالغ مرد اور عورت کی طرح کی جائے گی۔ [۱]

(۲) نابالغ لڑکا جو قریب البلوغ نہ ہو، اس کو تین کپڑوں میں کفنانا بہتر ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکی جو قریب البلوغ نہ ہو، اس کو پانچ کپڑوں میں کفنانا بہتر ہے یعنی نابالغوں کو بالغوں کی طرح کفنانا بہتر ہے۔ لیکن نابالغ لڑکے کی تکفین دو کپڑوں میں اور نابالغ لڑکی کی تکفین تین کپڑوں میں بھی جائز ہے۔ نابالغ لڑکے کو کم از کم ایک کپڑے میں اور نابالغ لڑکی کو کم سے کم دو کپڑوں میں کفنایا جا سکتا ہے۔ [۲]

(۳) اگر بچہ پیدائش کے بعد فوراً مر جائے یا کچھ دیر کے بعد مرے تو دونوں صورتوں میں اس کا اسلامی نام رکھا جائےگا، اس کو غسل دیا جائےگا اور کفن پہنایا جائےگا۔ کفن میں ایک کپڑا کافی ہوگا۔ نیز اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔

(۴) اگر بچہ مرا ہوا پیدا ہو، تو اس کا اسلامی نام رکھ دیں۔ اس کے بعد غسل دے دیں اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں۔ ایسے بچہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ [۳]

(۵) اگر کسی عورت کا حمل اس حال میں گر جائے کہ اعضا (ہاتھ، پاؤں، ناک اور منھ وغیرہ) بن چکے ہوں؛ لیکن یہ سب الگ الگ ہوں یعنی ابھی جڑے نہ ہوں تو ان سب اعضا کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کریں۔ [۴]

(۶) اگر کسی عورت کا حمل اس حال میں گر جائے کہ بدن اور اعضا بن چکے ہوں اور جڑ بھی چکے ہوں لیکن جسم ابھی تک ناقص ہو (ہاتھ، پاؤں ناک اور منھ وغیرہ بن چکے ہوں اور جسم سے جڑ بھی چکے ہوں لیکن ابھی تک پورا جسم تیار نہ ہو) تو ایسے بچہ کا نام رکھ دیں، بدن کو دھو لیں اور کپڑے میں لپیٹ کر دفن کریں  اس کو شرعی غسل نہیں دیا جائےگا اور اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائےگی۔ [۵]

(۷) اگر کوئی بچہ پیدائش کے دوران مر جائے اور اس کے جسم کا اکثر حصہ نہ نکلا ہو، تو ایسے بچہ کا حکم اس بچہ کی طرح ہے جو مرا ہوا پیدا ہو یعنی اس کا نام رکھا جائےگا، اس کو شرعی غسل دیا جائے گا اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر نمازِ جنازہ پڑھے بغیر دفن کر دیا جائےگا۔

(۸) اور اگر کوئی بچہ پیدائش کے دوران مرجائے مگر اس کے جسم کا اکثر حصہ نکل چکا ہو تو اس کا حکم اس بچہ کی طرح ہے جو زندہ پیدا ہو نے کے بعد مر گیا ہو یعنی اس کا اسلامی نام رکھا جائےگا، اس کو شرعی غسل دیا جائےگا، کفن پہنایا جائےگا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی جائے گی پھر دفن کر دیا جائے گا۔

نوٹ: بچہ کے جسم کے اکثر حصہ کے خروج کو جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سر کی طرف سے پیدا ہو اور سینہ نکل آئے، تو سمجھا جائے گا کہ زیادہ حصہ نکل گیا ہے اور اگر پیر کی طرف سے پیدا ہو اور ناف ظاہر ہو جائے ، تو سمجھا جائےگا کہ زیادہ حصہ نکل گیا ہے ۔[۶]

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1647


 

[۱] والصبي المراهق في التكفين كالبالغ والمراهقة كالبالغة (الفتاوى الهندية ١/١٦٠)

[۲] ( ومن لم يراهق الخ ) هذا لو ذكرا قال الزيلعي وأدنى ما يكفن به الصبي الصغير ثوب واحد والصبية ثوبان اهـ وقال في البدائع وإن كان صبيا لم يراهق فإن كفن في خرقتين إزار ورداء فحسن وإن كفن في إزار واحد جاز وأما الصغيرة فلا بأس أن تكفن في ثوبين اهـ أقول في قوله فحسن إشارة إلى أنه لو كفن بكفن البالغ يكون أحسن لما في الحلية عن الخانية و الخلاصة الطفل الذي لم يبلغ حد الشهوة الأحسن أن يكفن فيما يكفن فيه البالغ وإن كفن في ثوب واحد جاز اهـ وفيه إشارة إلى أن المراد بمن لم يراهق من لم يبلغ حد الشهوة (رد المحتار ٢/٢٠٤)

[۳] ومن استهل بعد الولادة سمي وغسل وصلي عليه وإن لم يستهل أدرج في خرقة ولم يصل عليه ويغسل في غير الظاهر من الرواية وهو المختار كذا في الهداية والاستهلال ما يعرف به حياة الولد من صوت أو حركة (الفتاوى الهندية ١/١٥٩)

[۴] إذا وجد طرف من أطراف الإنسان كيد أو رجل أنه لا يغسل لأن الشرع ورد بغسل الميت والميت اسم لكله ولو وجد الأكثر منه غسل لأن للأكثر حكم الكل وإن وجد الأقل منه أو النصف لم يغسل كذا ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي لأن هذا القدر ليس بميت حقيقة وحكما ولأن الغسل للصلاة وما لم يزد على النصف لا يصلى عليه فلا يغسل أيضا وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي أنه إذا وجد النصف ومعه الرأس يغسل وإن لم يكن معه الرأس لا يغسل فكأنه جعله مع الرأس في حكم الأكثر لكونه معظم البدن (بدائع الصنائع ٢/٣٠٢)

والسقط يلف ولا يكفن كالعضو من الميت قال الشامي : قوله ( والسقط يلف ) أي في خرقة لأنه ليس له حرمة كاملة وكذا من ولد ميتا بدائع قوله ( ولا يكفن ) أي لا يراعى فيه سنة الكفن وهل النفي بمعنى النهي أو بمعنى نفي اللزوم الظاهر الثاني فليتأمل قوله ( كالعضو من الميت ) أي لو وجد طرف من أطراف إنسان أو نصفه مشقوقا طولا أو عرضا يلف في خرقة إلا إذا كان معه الرأس فيكفن كما في البدائع قال وكذا الكافر لو له ذو رحم محرم مسلم يغسله ويكفنه في خرقة لأن التكفين على وجه السنة من باب الكراهة اهـ (رد المحتار ٢/٢٠٤)

[۵] ( وإن لم يستهل غسل ) وإن لم يتم خلقه ( في المختار ) لأنه نفس من وجه ( وأدرج في خرقة ) وسمي ( ودفن ولم يصل عليه ) قال الطحطاوي : قوله ( وإن لم يستهل ) مثله ما إذا استهل فمات قبل خروج أكثره وأما الاستهلال في البطن فغير معتبر بالأولى قوله ( وإن لم يتم خلقه ) فيغسل وإن لم يراع فيه السنة وبهذا يجمع بين من أثبت غسله وبين من نفاه فمن أثبته أراد الغسل في الجملة ومن نفاه أراد الغسل المراعي فيه وجه السنة والمتبادر منه أنه ظهر فيه بعض خلق وأما إذا لم يظهر فيه خلق أصلا فالظاهر أنه لا يغسل ولا يسمى لعدم حشره وحرره قوله ( في المختار ) وظاهر الرواية منع الكل وكذا لا يرث ولا يورث اتفاقا لأنه كجزء الحي كما في الزيلعي والحموي وحاصل ما في المصنف أنه بالنظر لكونه نفسا من وجه يغسل ويصلى عليه وبالنظر لكونه جزء آدمي لا ولا فاعملنا الشبهين فقلنا يغسل عملا بالأول ولا يصلى عليه عملا بالثاني ورجحنا خلاف ظاهر لرواية قوله ( لأنه نفس من وجه ) الأولى ما في ملتقى البحار حيث قال إكراما لبني آدم وإنما كان نفسا لأنه يبعث وإن لم ينفخ فيه الروح على أحد القولين قوله ( وسمى ) أي وإن لم يتم خلقه كما في الشرح عن الطحاوي (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص٥٩٨)

[۶] ( ومن ولد فمات يغسل ويصلى عليه ) ويرث ويورث ويسمى ( إن استهل ) بالبناء للفاعل أي وجد منه ما يدل على حياته بعد خروج أكثره حتى لو خرج رأسه فقط وهو يصيح فذبحه رجل فعليه الغرة وإن قطع أذنه فخرج حيا فمات فعليه الدية ( وإلا ) يستهل ( غسل وسمى ) عند الثاني وهو الأصح فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراما لبني آدم كما في ملتقى البحار قال الشامي : قوله ( بعد خروج أكثره ) متعلق بوجد فلو خرج رأسه وهو يصيح ثم مات لم يرث ولم يصل عليه ما لم يخرج أكثر بدنه حيا بحر عن المبتغى حد الأكثر من قبل الرجل سرته ومن قبل الرأس صدره (رد المحتار ٢/٢٢٧)

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …