نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی:
اللهم استجب لسعد إذا دعاك (سنن الترمذی، الرقم: ۳۷۵۱)
اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما، جب وہ آپ سے دعا کریں!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا
حضرت عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہا (حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے درج ذیل واقعہ نقل کرتی ہیں:
غزوہ احد کے دوران (جب دشمن نے پیچھے سے حملہ کیا تھا اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میدان جنگ میں شہید کیے گئے تھے) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پا رہے تھے اور پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
اس وقت میں ایک طرف ہٹ گیا اور اپنے آپ سے کہا کہ میں کفار سے لڑتا رہوں گا۔ لڑتے ہوئے یا تو شہادت سے شرف یاب ہوں گا یا اللہ تعالٰی مجھے زندہ رکھیں گے۔ اگر میں اس جنگ میں بچ جائے، تو ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوگی۔
اسی دوران، میں نے اچانک ایک شخص کو دیکھا، جس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا، جس کی وجہ سے میں اسے پہچان نہ سکا۔ کفار اس کی طرف بڑھتے جا رہے تھے؛ یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ان لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور آخر کار اس تک پہنچ گئے۔ اسی وقت اس شخص نے اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں کافروں کے منہ پر پھینک دیا، جس سے وہ الٹے پاؤں لوٹ گئے اور پیچھے ہٹنے لگے؛ یہاں تک کہ وہ پہاڑ تک پہنچ گئے۔
اس شخص نے بار بار اپنے اس عمل کو دہرایا (یعنی کافروں کے منہ پر کنکریاں پھینکنا، جب کہ وہ اس پر حملہ کرتے رہے) اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ شخص کون ہے (کیونکہ اس کا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا)۔
میرے اور اس شخص کے درمیان حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ یہ عظیم شخص کون ہے؛ مگر اس سے پہلے ہی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے سعد! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو آپ کو بلا رہے ہیں!
میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ جواب میں حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے اسی شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
یہ جان کر کہ یہ شخص کوئی اور نہیں؛ بلکہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور اسی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور انتہائی خوشی کے عالم میں مجھے اپنے زخموں کی کوئی فکر نہیں رہی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے سعد! تم اتنی دیر کہاں تھے؟ میں نے جواب دیا: میں آپ سے کچھ دور تھا، جہاں سے میں آپ کو دیکھ سکتا تھا (مگر دشمن ہمارے درمیان آئے اور آپ پر حملہ کرنے لگے اور میں آپ کو نہیں دیکھ سکا)۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور میں نے کفار کی طرف تیر چلانا شروع کر دیا اور کہنے لگا: اے اللہ! یہ تیرا تیر ہے؛ لہٰذا اسے اپنے دشمن پر لگا!
جب میں تیر چلا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا فرما رہے تھے: اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما! اے اللہ! سعد کے تیروں کو نشانے پر لگا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تیر چلاتے رہو، اے سعد! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں!
میرے ہر تیر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ اے اللہ! اس کے تیر کو نشانے پر لگا اور جب بھی وہ آپ سے دعا کریں، تو اس کی دعا قبول فرما۔
آخر کار جب میرے ترکش کے تمام تیر ختم ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیروں کو پھیلا دیا اور مجھے ایک ایک تیر دینے لگے؛ تاکہ میں اس کو اللہ کے راہ میں چلاوں۔
امام زہری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جنگ احد میں ایک ہزار تیر چلائے تھے۔ (مستدرک حاکم، الرقم: ۴۳۱۴)