امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز

حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا ایک بوڑھے شخص کو وضو کا صحیح طریقہ سکھانا

ایک دفعہ مدینہ منورہ میں ایک بوڑھا شخص آیا۔ نماز کے وقت جب وہ وضو کرنے لگے، تو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ وہ غلط طریقے سے وضو کر رہے ہیں؛ چنانچہ اُن کے دل میں اس بوڑھے شخص کی فکر لاحق ہوئی۔

لہذا انہوں نے چاہا کہ وہ ان کی اصلاح کریں اور ان کو وضو کا صحیح طریقہ سکھائیں؛ مگر ایسے انداز سے ان کی اصلاح کی جائے کہ لوگوں کے سامنے انہیں شرمندگی نہ ہو۔

چنانچہ وہ دونوں بوڑھے شخص کے پاس پہنچے اور ان میں سے ایک نے کہا: میرے بھائی اور میرے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ ہم میں سے کون بہتر وضو کرتا ہے۔ براہِ کرم ہمارا طریقۂ وضو دیکھیں اور ہمیں بتائیں کہ ہم میں سے کون زیادہ صحیح طریقے سے وضو کرتا ہے۔ اگر ہم سے وضو میں کوئی غلطی ہو جائے، تو ہماری اصلاح فرمائیں۔

اس شخص نے ان دونوں کی بات مان لی۔ پھر دونوں بھائیوں نے وضو کرنا شروع کیا اور وہ شخص ان کو غور سے دیکھتا رہا۔

جب اس شخص نے ان کا طریقۂ وضو دیکھا، تو اسے معلوم ہوا کہ ان دونوں بھائیوں (حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما) کے وضو کا طریقہ بالکل درست تھا؛ مگر ان کا طریقۂ وضو صحیح نہیں تھا اور ان دونوں بھائیوں نے عزت واحترام کے ساتھ ان کی اصلاح کی اور ان کو سنت کے مطابق وضو کا صحیح طریقہ سکھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا تھا۔

چنانچہ انہوں نے ان دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں آج سے پہلے وضو کرنے کا صحیح طریقہ نہیں جانتا تھا۔ اب آپ دونوں نے مجھے وضو کا صحیح طریقہ سکھایا ہے۔(مناقب للکردری ۱/۳۹)

حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمہ اللہ کا ایک شخص کی اصلاح کا واقعہ

ایک مرتبہ حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ وعظ فرما رہے تھے۔ دوران وعظ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے؛ لیکن حضرت رحمہ اللہ نے فوراً اس کی اصلاح نہیں کی؛ تاکہ لوگوں کے سامنے اس کو شرمندگی نہ ہو۔

دوسری طرف حضرت رحمہ اللہ کو اس کی اصلاح کی بھی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ آپ نے اس کی اصلاح کے لیے مناسب موقع کا انتظار کیا۔

وعظ کے بعد، حضرت رحمہ اللہ نے اس سے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیے، مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔

جب حاضرینِ مجلس چلے گئے، تو آپ نے اس شخص سے انتہائی نرمی اور شفقت سے کہا کہ بھائی! میرے اندر ایک عیب ہے کہ میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا ہے اور حدیث شریف میں اس کے متعلق بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، پھر آپ نے کچھ حدیثیں بیان کیں۔

اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے فرمایا کہ برائے مہربانی! تم میرے پائجامہ کو غور سے دیکھ کر بتاؤ کہ کیا واقعی میرے ٹخنوں سے نیچے ہے یا یہ محض میرا وہم ہے۔

یہ سن کر اس شخص کو فوراً احساس ہو گیا کہ حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کے اندر اس قسم کا کوئی عیب نہیں ہے؛ بلکہ ان کے اندر یہ عیب تھا کہ ان کا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے رہتا تھا۔

پھر وہ حضرت رحمہ اللہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہا: آج میں آپ کے سامنے اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور ان شاء اللہ آئندہ کبھی بھی اس گناہ کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ (حکایاتِ اولیاء، ص ٤٧، سلفِ صالحین کے ایمان افروز واقعات، ص ۳۰۷)

Check Also

باغِ محبّت (تینتیسویں قسط)

علمائے صالحین سے مشورہ کرنے کی اہمیت “ہر فن میں اس کے ماہرین سے رجوع …