حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ
حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ الله ہمارے ان اکابر اور بزرگوں میں سے تھے، جن کا زمانہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کی پیدائش ١٣٢٥ ھجری میں ہوئی تھی اور وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ الله کے اجل خلفاء میں سے تھے۔ وہ کئی سالوں تک دار العلوم دیوبند کے بڑے مفتی شمار کیے جاتے تھے۔ ان کا انتقال ١٤١٧ ھجری (١٩٩٦ عیسوی) میں ہوا تھا۔
حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ الله کو الله تعالیٰ نے بہت سے نمایاں کمالات اور اوصاف سے نوازا تھا۔ ان کا ایک نمایاں اور قابل نمونہ وصف یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے عاشق تھے؛ چنانچہ اپنی زندگی کے تمام امور میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی اتباع کرنے کا خوب اہتمام فرماتے تھے۔
ذیل میں چند واقعات نقل کیے جا رہے ہیں، جن کو پڑھ کر ہم اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ الله سنتوں پر پابندی کا کتنا زیادہ اہتمام فرماتے تھے:
دائیں ہاتھ سے پانی پینا
ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ کھانے کے دوران ایک شاگرد نے بائیں ہاتھ سے پانی کا پیالہ لیا اور داہنا ہاتھ پیالے کے نیچے لگا کر پانی پی لیا۔
جب حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس کو اس طرح پانی پیتے ہوئے دیکھا، تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: کیا دایاں ہاتھ نہیں تھا؟
اس نے جواب دیا: حضرت! داہنے ہاتھ پر کھانا لگا تھا۔ اگر اس ہاتھ سے پیالہ پکڑتا، تو پیالہ خراب ہو جاتا۔
یہ جواب سن کر حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے ناراضگی کے لہجہ سے فرمایا: کیا پیالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زیادہ قیمتی ہے؟
اپنے بڑے کے حکم کی تعمیل
آنکھ میں موتیا اتر آنے کی وجہ سے بینائی جاتی رہی۔ حضرت مفتی صاحب آپریشن نہ کرانے پر مصر تھے اور لوگوں کے اصرار کرنے پر ارشاد فرماتے کہ آنکھوں کے لینے پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے، میں اس کو کیوں ضائع کروں؟ اور آپریشن کی صورت میں کچھ دن نمازیں اشارہ سے پڑھنا پڑتی ہیں، سجدہ نہیں کر سکتے، اس کو کیوں برداشت کروں؟
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نے حکم فرمایا، اولاً تب بھی معذرت ہی کی اور وہی جواب دیا اور عرض کیا: حضرت گنگوہی نے آپریشن نہیں کرایا اور لوگوں کے اصرار پر فرمایا کہ آنکھوں کے لینے پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے، میں اسے کیوں ضائع کروں؟
اس پر حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے فرمایا: میں تو اپنی آنکھوں کا کام بھی آپ کی آنکھوں سے لیتا ہوں۔
اس کے بعد حضرت قدس سرہ نے آنکھیں بنوائیں اور آپریشن کے بعد آنکھوں میں روشنی آجانے پر فرمایا: اس کی تو مسرت ہے ہی آنکھوں میں روشنی آ گئی؛ مگر اس سے زیادہ مسرت اس کی ہے کہ شیخ کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔
حرم میں نماز کی ادائیگی کا اہتمام
ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت موسم بہت زیادہ گرم تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا پورا بدن پھوٹ پڑا اور پورے بدن پر بڑے بڑے چھالوں کی شکل میں دانے نکل آئے۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی پریشانی کو دیکھ کر بعض رفقاء نے عرض کیا کہ حضرت! کچھ نمازیں قیام گاہ ہی پر پڑھ لیں، حرم نہ جائیں؛ مگر اس حالت میں بھی حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کسی طرح اس کے لیے تیار نہ ہوئے کہ وہ حرم نہ جائیں اور قیام گاہ ہی پر کچھ نمازیں ادا کر لیں اور فرمایا:
ہم اپنا وطن چھوڑ کر صرف حرم کی خاطر آئے ہیں؛ لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہاں رہ کر بھی قیام گاہ پر نماز ادا کریں اور حرم کی نماز سے محروم رہیں۔
اضافی رقم کے ساتھ تنخواہ کی واپسی
دار العلوم دیوبند میں ملازمت کے دوران حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ہر ماہ مدرسہ سے تنخواہ وصول فرماتے تھے؛ تاکہ انہیں اس بات کا پورے طور پر احساس رہے کہ وہ مدرسہ کی طرف سے مفوّضہ ذمہ داری اور وقت کی پابندی کے جوابدہ ہیں۔
دوسری طرف حضرت مفتی صاحب رحمہ الله کا معمول تھا کہ وہ تنخواہ وصول کرنے کے بعد اس میں مزید رقم ملاتے تھے اور اس کو مدرسہ میں واپس کر دیتے تھے (مزید رقم دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ مدرسہ کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں)۔
لوگوں کے چہروں پر مسنون داڑھی دیکھ کر اظہار خوشی
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ جب کسی شخص کو دیکھتے تھےکہ اس کے چہرے پر مسنون داڑھی نہیں ہے، تو وہ اس کے بارے میں فکرمند ہوتےتھے اور جب اس شخص نے سنت کے مطابق داڑھی رکھنا شروع کر لیا، تو وہ بے انتہا خوش ہوتے تھے۔