اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا‎ ‎

غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لأعطين الراية غدا رجلا يفتح على يديه، يحبّ الله ورسوله، ويحبّه الله ورسوله. في الغد، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وأعطاه الراية (من صحيح البخاري، الرقم: ٣٠٠٩)

کل، میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر (اللہ تعالی مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائیں گے۔ وہ شخص (جس کو میں جھنڈا دوں گا ایسا ہے کہ وہ) اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ اگلے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔

غزوه خیبر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت

خیبر کے موقع پر جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کا جھنڈا حضرت علی رضی الله عنہ کو عطا فرمایا، تو حضرت علی رضی الله عنہ صحابہ کرام رضی الله عنہ کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے قلعہ قموص کی طرف روانہ ہوئے۔

جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے، تو ایک یہودی جنگجو، جس کا نام مرحب تھا، ان کو للکارتے ہوئے نکلا۔ مرحب ایک بہادر جنگجو تھا جس کی طاقت وقوت اور شجاعت مشہور تھی۔

چنانچہ جب مرحب کا سامنا حضرت علی رضی الله عنہ اور مسلمانوں سے ہوا، تو مندرجہ ذیل اشعار پڑھ کر اس نے جنگ میں اپنی بہادری اور شجاعت پر فخر کیا:

قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ

اہل خیبر سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں۔

شَاكِيْ السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

میں ایک ایسا جنگجو ہوں جو پوری طرح مسلح ہے اور جنگ میں تجربہ کار ہے۔

إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ

(میں اپنی حقیقی طاقت اور بہادری اس وقت دکھاتا ہوں) جب لڑائی شروع ہوتی ہے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔

یہ الفاظ کہہ کر اس نے مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ وہ آگے آئیں اور اس کے ساتھ مقابلہ کریں۔

اس کے چیلنج کے جواب میں حضرت عامر بن اکوع رضی الله عنہ نکلے۔ حضرت عامر رضی الله عنہ مرحب کی طرف بڑھے اور درج ذیل اشعار پڑھے:

قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّيْ عَامِرُ

اہلِ خیبر سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں عامر ہوں۔

شَاكِيْ السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ

میں ایک ایسا جنگجو ہوں جو پوری طرح سے مسلح ہے اور میں کسی بھی جنگ میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔

اس کے بعد مرحب نے حملہ کرتے ہوئے مقابلہ شروع کیا اور اپنی تلوار سے حضرت عامر رضی الله عنہ پر وار کیا؛ مگر حضرت عامر رضی الله عنہ نے اپنی ڈھال سے اس کا حملہ روک دیا۔ مرحب کی تلوار کی ضرب اتنی زور دار تھی کہ ڈھال کے اندر لگ گئی۔

حضرت عامر رضی الله عنہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور مرحب کو اپنی ڈھال کے نیچے سے مارا؛ مگر ان کی تلوار مرحب کو نہیں لگی؛ بلکہ ان کی طرف لوٹ آئی، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔

اس کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ مرحب کو چیلنج کرتے ہوئے نکلے۔

مرحب نے دوبارہ وہی اشعار پڑھے جس کے جواب میں حضرت علی رضی عنہ نے درج ذیل اشعار پڑھے:

أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَيْدَرَهْ

میں وہی ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر (خوفناک شیر) رکھا۔

كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيْهِ الْمَنْظَرَهْ

جنگل کے بھیانک نظر آنے والے شیر کی طرح۔

أُوْفِيْهِمْ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ

جب میں کسی کو بدلہ دیتا ہوں، تو بھر پور انداز میں دیتا ہوں (یعنی میں دشمن کو پورے زور اور شدید زخمی کرکے اس کو تیزی سے مار ڈالتا ہوں)۔

حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے آپ کو حیدر (خوفناک شیر) کہا، اس کے بارے میں ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت علی رضی الله عنہ کی ولادت ہوئی، تو ان کا والد ابو طالب مکہ مکرمہ سے باہر سفر میں تھا؛ اس لیے ان کی ماں نے ان کا نام حیدر رکھا (یعنی شیر)۔ ان کی ماں نے ان کا نام اپنے والد کے نام کے مشابہ حیدر رکھا۔ ان کے والد کا نام اسد تھا (جس کا مطلب شیر ہے)۔

جب ابو طالب سفر سے مکہ مکرمہ واپس آیا اور اس کی بیوی نے اس کو بتایا کہ انہوں نے ان کے بچے کا نام حیدر رکھا ہے، تو ابو طالب نے اپنے بیٹے کا نام بدل کر علی رکھ دیا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ اسی نام سے مشہور ہوگئے جو ان کے والد نے رکھا تھا۔ تاہم، اس موقع پر، حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنی والدہ کی طرف سے دیئے گئے نام کا استعمال کیا اور اپنے آپ کو حیدر کہا۔

ایک روایت کے مطابق مرحب نے گزشتہ رات ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک شیر نے اس پر حملہ کیا اور اس کے بدن کو پھاڑ دیا۔

علامہ زرقانی رحمہ الله نے ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو کشف سے (خواب کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے) اس کے خواب کا علم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں حیدر کا نام استعمال کیا جس کا مطلب انتہائی خوفناک شیر ہے اور انہوں نے اس کے خواب کی طرف اشارہ کیا کہ میں وہی شیر ہوں جس کو تم نے اپنے خواب میں دیکھا تھا۔

حضرت علی رضی الله عنہ کے اپنے آپ کو خوفناک شیر کہنے کی وجہ سے مرحب نے محسوس کیا کہ اس کے خواب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کا خاتمہ حضرت علی رضی الله عنہ کی تلوار پر ہوگا؛ چنانچہ وہ خوف سے مغلوب ہو گیا اور اس کی ہمت پست ہوگئ۔

پھر دونوں نے مقابلہ شروع کیا، تو حضرت علی رضی الله عنہ ایک ہی جھٹکے میں اس کی کھوپڑی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے، جب کہ وہ خیبر کا نامور بہادر تھا۔ پھر الله تعالیٰ نے حضرت علی رضی الله عنہ کے ہاتھ پر اس قلعہ کی فتح عطا فرمائی۔

(من صحيح مسلم، الرقم: ١٨٠٧ وشرح النووي عليه ١٢/١٨٥)

Check Also

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعتماد‎ ‎

عيّن سيدنا عمر رضي الله عنه قبل موته ستة من الصحابة الكرام رضي الله عنهم …