امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – چھتی قسط

لوگوں کو نصیحت کرتے وقت ان کو شرمندہ کرنے سے اجتناب

جو شخص ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے جو دین سے دور ہیں اور ان کے پاس دین کی صحیح سمجھ نہیں ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔ نرمی سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے ان کی تحقیر نہ کرے اور نہ ان کو شرمندہ کرے۔

لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا اور انہیں شرمندہ نہ کرنا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا اسوہ مبارکہ اور انبیائے کرام علیہم السلام کا مسنون طریقہ تھا۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم اور اسلاف عظام رحمۃ الله علیہم بھی جب لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے یا انہیں نصیحت کرتے یا ان کی اصلاح کرتے، تو وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور انبیائے کرام کی اس مبارک سنت پر عمل کرتے تھے۔

فرعون کو اسلام کی دعوت دینا

جس وقت الله تعالی نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور اسے اسلام کی دعوت دیں، تو الله تعالی نے ان دونوں کو اس سے نرمی سے گفتگو کرنے کا حکم دیا۔

الله تعالی کا فرمان ہے:

فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ

تم دونوں اس سے (فرعون سے) نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا (الله تعالی سے) ڈر جائے۔

قابل غور امر ہے کہ فرعون نے اُلوہیت کا دعوی کیا تھا جو سب سے بڑا گناہ ہے، اس کے باوجود الله تعالی نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ جب وہ اسے دین کی دعوت دیں، تو وہ نرمی اور شائستگی سے بات کریں۔

خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله کی ایک شخص کو نصیحت دینا
خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله کے بارے میں ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور لوگوں کے سامنے ان سے سخت لہجہ میں گفتگو کی اور ان سے کہا :اے ہارون! الله سے ڈرو۔

جب ہارون الرشید رحمہ الله نے اس شخص کا سخت برتاؤ دیکھا، تو وہ اس کو نصیحت کرنے کے لیے ایک طرف لے گیے اور اس سے کہا:

اے فلاں! میرے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو! مجھے یہ بتاؤ کہ میں زیادہ برا ہوں یا فرعون زیادہ برا تھا؟

اس نے جواب دیا: فرعون تم سے زیادہ برا تھا۔

اس کے بعد ہارون الرشید رحمہ الله نے اس سے پوچھا: کیا تم بہتر ہو یا نبی موسی علیہ السلام بہتر ہیں؟

اس شخص نے جواب دیا: نبی موسی علیہ السلام مجھ سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔

پھر خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله نے اس سے کہا:

کیا تم نہیں جانتے کہ جب الله تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا، تو الله تعالی نے ان کو حکم دیا کہ وہ فرعون سے نرمی سے بات کریں۔ اس کے برخلاف تم نے لوگوں کے سامنے مجھ سے سخت لہجہ میں بات کی اور تم نے اس طریقہ کو نہیں اپنایا، جس کو الله تعالی نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کو اپنانے کا حکم دیا تھا اور نہ تم نے الله تعالی کے نیک بندوں کے اعلی اخلاق کی پیروی کی۔

وہ شخص ایک مخلص انسان تھا؛ لہذا اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ہارون الرشید رحمہ الله سے معافی مانگی اور ان سے کہا: مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں الله تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔

ہارون الرشید رحمہ الله نے اس شخص کے لیے اپنے دل میں کوئی کدورت نہیں رکھی اور اس کو یہ کہتے ہوئے فورًا معاف کر دیا کہ الله تعالی تجھے معاف فرمائے۔

اس کے بعد ہارون الرشید رحمہ الله نے حکم دیا کہ اس شخص کو بیس ہزار درہم بطورِ ہدیہ دیا جائے؛ لیکن اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ (المنتظم)

اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم کسی شخص کو نصیحت کریں یا اس کی اصلاح کریں، تو ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم تو حضرت موسی علیہ السلام سے بڑے نہیں ہیں اور نہ یہ شخص جس کو ہم نصیحت کر رہے ہیں، فرعون سے زیادہ برا ہے؛ لہذا ہمیں اس سے نرمی اور شائستگی سے بات کرنی چاہیئے اور کسی بھی طریقہ سے اس کی تحقیر نہیں کرنی چاہیئے۔

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …