حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وأصدقهم (أمتي) حياء عثمان (سنن الترمذي، الرقم: ٣٧٩١)
میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار شخص عثمان بن عفان ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتا آپ کی ران مبارک یا پنڈلی مبارک سے تھوڑا سا ہٹا ہوا تھا؛ لیکن آپ کی رانیں اور پنڈلیاں آپ کے تہبند سے ڈھکی ہوئی تھیں۔
اسی دوران میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ وہ اندر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اسی حالت میں لیٹے لیٹے بات کی۔
کچھ دیر کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ وہ اندر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی اسی حالت میں لیٹے لیٹے گفتگو فرمائی۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے، اپنے کپڑے کو درست فرمایا اور اپنے تہبند کو کرتے سے چھپایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اندر آنے کی اجازت عطا فرمائی۔ وہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی کچھ دیر گفتگوفرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب عثمان چلے گئے، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
میں نے یہ بات دیکھی کہ جب ابو بکر تشریف لائے، تو آپ لیٹے رہے۔ اسی طرح جب عمر حاضر ہوئے، تب بھی آپ لیٹے رہے؛ لیکن جب عثمان حاضر ہوئے، تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو درست فرمایا (یعنی عثمان کے آنے سے پہلے آپ کیوں اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو ٹھیک فرمایا؟)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
میں اس شخص سے کیوں زیادہ حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الرقم: 2401)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
عثمان حیا کے اونچے مقام پر فائز ہیں۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں انہیں اسی حالت میں (لیٹے لیٹے) اندر آنے کی اجازت دے دیتا اور بات کرتا، تو وہ میرے سامنے اپنی ضرورت پیش کرنے کی قدرت نہیں رکھتے (اپنی بے انتہا حیا کی وجہ سے)۔ (صحیح مسلم، الرقم: 2402)