وضو کی سنتیں اور آداب

(۱) وضو کے لئے اونچی جگہ: کرسی وغیرہ پر بیٹھنا اور مقام وضو کا صاف ستھرا ہونا۔ [1]

عن عبد خير عن علي رضي الله عنه أنه أتي بكرسي فقعد عليه ثم دعا بتور فيه ماء فكفأ على يديه ثلاثا (سنن النسائي، الرقم: 93)

حضرت عبد خیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ایک کرسی لائی گئی، آپ اس پر تشریف فرما ہوئے، پھر ایک برتن میں ‏پانی منگوایا اور (لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ وضو سکھانے کے لیے) تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی بہایا (یعنی اپنے ہاتھوں کو گٹوں تک تین بار دھویا)۔‏

‏(۲) ‎وضو کی نیت کرنا۔ [2]

(۳) وضو شروع کرنے سے پہلے مسنون دعا پڑھنا: ‏[3]

بِسْمِ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ للّٰهِ

میں اللہ تعالیٰ کے نام سے وضو شروع کرتا ہوں اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔

عن أبى هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا أبا هريرة إذا توضأت فقل بسم الله والحمد لله فإن حفظتك لا تبرح تكتب لك الحسنات حتى تحدث من ذلك الوضوء (مجمع الزوائد، الرقم: 1112)[4]

حضرت ابو ہریرہ‎ ‎رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‎اے‎ ‎ابو ہریرہ، جب تم وضو کرو، تو بسم الله والحمد لله کہو، اس لیے کہ تمہاری حفاظت پر مامور فرشتے تمہارے لیے نیکیاں قلم بند کرتے رہیں گے؛ تا آں کہ تمہارا ‏‎‎وضو ٹوٹ جائے۔

(۳) دونوں ہاتھوں کو گٹوں سمیت تین بار دھونا۔ [5]

عن حمران مولى عثمان أن عثمان بن عفان رضي الله عنه دعا بوضوء فتوضأ فغسل كفيه ثلاث مرات (صحيح مسلم، الرقم: 226)[6]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ‏‎ ‎نے وضو کے لیے ‏پانی منگوایا اور اس سے وضو کیا، (اس وضو میں) آپ نے اپنے ہاتھوں کو (گٹوں سمیت) تین بار دھویا۔

‏(۴) مسواک سے منھ صاف کرنا۔ نیز مسواک کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ دانتوں پر مسواک چوڑان پر ہو اور زبان پر لمبان یعنی لمبائی میں ہو۔ اگر مسواک دستیاب نہ ہو، تو انگلی ‏سے مسواک کرے۔ [7]

عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تفضل الصلوة التي يستاك لها على الصلوة التي لا يستاك لها سبعين ضعفا (المستدرك على الصحيحين للحاكم، الرقم: 515)[8]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ نماز جو مسواک کر کے ادا کی جائے، اس نماز سے ستّر ‏گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے جو مسواک کے بغیر ادا کی جائے۔

عن أنس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجزئ من السواك الأصابع (التلخيص الحبير 1/104)[9]

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر مسواک دستیاب نہ ہو، تو اس کی جگہ) انگلی سے مسواک ‏کرنا کافی ہے۔   ‏

(۶)‏ دائیں ہاتھ سے تین چلوّ  پانی لے کر تین بار اس طرح کلیّ کرنا کہ پورے منہ میں اچھی طرح پانی پہونچ جائے۔ [10]

عن وهيب عن عمرو عن أبيه شهدت عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد رضي الله عنه عن وضوء النبي صلى الله عليه وسلم فدعا بتور من ماء فتوضأ لهم وضوء النبي صلى الله عليه وسلم فأكفأ على يده من التور فغسل يديه ثلاثا ثم أدخل يديه في التور فمضمض واستنشق واستنثر ثلاث غرفات (صحيح البخاري، الرقم: 186)

حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے لوگوں کو وضو کر کے نبی ‏صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ وضو سکھایا۔ (اس وضو میں) حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے برتن سے اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنے دونوں ‏ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا او تین مرتبہ کلّی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر ناک کو صاف کیا۔ ‏

(۷)‏ دائیں ہاتھ سے ناک میں پانی ڈالنا اور اگر ناک صاف کرنے کی ضرورت ہو تو بائیں ہاتھ سے صاف کرنا۔ [11]

عن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا توضأ أحدكم فليستنشق بمنخريه من الماء ثم لينتثر (صحيح مسلم، الرقم: 237)

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی وضو کرے، تو ناک کے اندر ‏پانی ڈالے، پھر اس کو جھاڑے۔‏

(۸)‏ روزہ کے دوران کلّی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں احتیاط کرنا، ان دونوں میں مبالغہ نہ کرنا اس لئے کہ مبالغہ کرنے کی وجہ سے اگر پانی حلق میں داخل ہوا یا ناک کے ‏ذریعہ بدن میں داخل ہوا، تو روزہ ٹوٹ جائےگا۔ ‏See 60

عن لقيط بن صبرة رضي الله عنه قلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبرني عن الوضوء قال أسبغ الوضوء وخلل بين الأصابع وبالغ فى الاستنشاق إلا أن تكون صائما (سنن الترمذي، الرقم: 788)[12]

حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں سوال کیا، تو آپ صلی علیہ وسلم نے ‏فرمایا: وضو اچھی طرح کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو الاّ یہ کہ تم روزے سے ہو (تو ناک میں پانی ڈالنے میں ‏مبالغہ مت کرنا)۔

(۹) دورانِ وضو یا وضو کے بعد مندرجہ ذیل دعا پڑھنا: ‏[13]

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ وَوَسِّعْ لِيْ فِيْ دَارِيْ وَبَارِكْ لِيْ فِيْ رِزْقِيْ

اے اللہ ! میرے گناہوں کو معاف فرما، میرے مکان میں وسعت پیدا فرما اور میری روزی میں برکت عطا فرما۔ ‏

عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بوَضوء فتوضأ فسمعته يدعو ويقول اللهم اغفر لي ذنبي ووسع لي في داري وبارك لي في رزقي فقلت يا نبي الله سمعتك تدعو بكذا وكذا قال وهل تركن من شيء (الأذكار للإمام النووي، الرقم: 78)[14]

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وضو کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا، تو آپ صلی ‏اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے ہیں:‏‎ ‎اللهم اغفر لي ذنبي ووسّع لي في داري ‏وبارك لي في رزقي، تو میں نے سوال کیا : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  نے دورانِ وضو آپ سے یہ دعا سنی: اللهم اغفر لي ذنبي ‏ووسع لي في داري وبارك لي في رزقي تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : کیا اس دعا میں کسی قسم کی بھلائی رہ گئی ہے؟ یعنی یہ دعا تمام ‏نعمتوں اور بھلائیوں کو شامل ہے۔

(۱۰) تین بار چہرہ دھونا۔ چہرہ دھونے کا طیرقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں میں پانی لیا جائے اور پورا چہرہ: پیشانی سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو ‏تک اس طرح دھویا جائے کہ پانی آنکھوں کے کناروں اور کان کی لو سے متصل کھال سمیت چہرے کے ہر حصہ تک پہونچ جائے۔ [15]

عن عبد الله بن زيد بن عاصم المازني ثم الأنصاري رضي الله عنه أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ … ثم غسل وجهه ثلاثا (صحيح مسلم، الرقم: 236)

حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو فرمایا۔ پھر اپنے ‏چہرے کو تین بار دھویا۔

(۱۱) ڈاڑھی کا خلال کرنا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تر انگلیوں کو ڈاڑھی کے نیچے سے اوپر کی طرف پھیرا جائے۔ خلال اس شخص کے لیے سنت ہے جس کی ڈاڑھی گھنی ہو؛ کیوں کہ ‏بالوں کی کثرت کی وجہ سے کھال نظر نہیں آتی ہے۔ اگر ڈاڑھی ہلکی ہو اور کھال نظر آتی ہو، تو اس صورت میں ڈاڑھی کا خلال نہیں کیا جائےگا؛ بلکہ چہرے کا دھونا اور کھال ‏تک پانی پہونچانا ضروری ہوگا۔ [16]

عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا توضأ أخذ كفا من ماء فأدخله تحت حنكه فخلل به لحيته وقال هكذا أمرني ربي (سنن أبي داود، الرقم: 145)[17]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے، تو ہتھیلی بھر پانی لیتے اور اس کو اپنی ٹھوڑی ‏کے نیچے رکھتے پھر اس سے اپنی ڈاڑھی کا خلال کرتے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے میرے رب نے اسی طرح (ڈاڑھی کے خلال ‏کا) حکم دیا ہے۔

(۱۲) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین بار دھونا۔ ہاتھ دھو نے کا مستحب طر یقہ یہ ہے کہ انگلیوں سے شروع کر کے کہنیوں تک دھویا جائے۔ اگر کوئی کہنیوں سے دھونا شروع ‏کرے یعنی پہلے کہنیوں کو دھوئے پھر ہاتھ کے دوسرے حصوں اور انگلیوں کو  دھوئے تو بھی درست ہے؛ مگر اس طرح دھونا، مستحب طریقہ کے خلاف ہے۔‏[18]

عن عبد الله بن زيد بن عاصم المازني ثم الأنصاري رضي الله عنه أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ … ثم غسل وجهه ثلاثا ويده اليمنى ثلاثا والأخرى ثلاثا (صحيح مسلم، الرقم: 236)

حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، تو آپ نے ‏اپنے چہرے کو تین بار، دائیں ہاتھ کو تین مرتبہ اور بائیں ہاتھ کو تین دفعہ دھویا۔ ‏

(۱۳) انگلیوں کا خلال کرنا۔ پہلے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا خلال کرنا پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں کا خلال کرنا۔

خلال کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے اوپر رکھا جائے پھر بائیں ہاتھ کی انگلیو‏ں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے بیچ پھیرا جائے۔ اسی طرح دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے بیچ پھیرا جائے۔

خلال کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں ‏کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان داخل کیا جاوے۔ ‏[19]

عن عاصم بن لقيط بن صبرة عن أبيه رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم إذا توضأت فخلل الأصابع (سنن الترمذي، الرقم: 38)[20]

حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم وضو کرو، تو انگلیوں کا خلال کرو۔‏

(۱۴) پورے سر کا ایک بار مسح کرنا۔ مسح کا طریقہ یہ ہے کہ وضو کرنے والا اپنے دونوں ہاتھوں کو لے اور ان کو پورے سر پر اس طرح پھیرے کہ سر کے اگلے حصہ سے شروع ‏کرے اور پچھلے حصہ پر ختم کرے۔ [21]

عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فمسح رأسه مرة (سنن ابن ماجة، الرقم: 437)[22]

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ایک مرتبہ ‏اپنے سر کا مسح کیا۔

‏(۱۵) کانوں کا مسح کرنا۔ کان کا مسح اس طرح کیا جائے کہ شہادت کی انگلی کو کان کے اندرونی حصہ میں داخل کیا جائے اور انگوٹھے سے کان کے بیرونی حصہ یعنی کان کے پیچھے کا مسح ‏کیا جائے۔ اس کے بعد چھوٹی انگلی یا شہادت کی انگلی کو کانوں کے اندر داخل کیا جائے۔ [23]

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده (أي عبد الله بن عمرو بن العاص) رضي الله عنهما قال إن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله كيف الطهور فدعا بماء فى إناء … ثم مسح برأسه وأدخل إصبعيه في أذنيه ومسح بإبهاميه على ظاهر أذنيه وبالسباحتين باطن أذنيه (سنن أبي داود، الرقم: 135)[24]

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا اے اللہ ‏کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وضو کا کیا طریقہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا ۔ ۔ ۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی انگلیوں ‏کو اپنے کانوں میں داخل کیا اور اپنے انگوٹھوں سے کانوں کا بیرونی حصہ اور شہادت کی انگلیوں سے کانوں کے سوراخ کے اندر کا مسح کیا۔

(۱۶) گردن کے پیچھلے حصے کا انگلیوں کے پیچھلے حصہ سے مسح کرنا (حلق کا مسح نہیں کیا جائےگا)‏۔ [25]

 عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من توضأ ومسح بيديه على عنقه وقي الغل يوم القيامة (التلخيص الحبير 1/136)[26]

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے وضو کیا اور اپنے ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا، وہ ‏قیامت کے دن (آگ کے) ہار سے محفوظ رہےگا۔“‏

(۱۷) تین بار ٹخنوں سمیت پیر دھونا۔ پیر دھونے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انگلیوں سے شروع کیا جائے اور ٹخنوں پر ختم کیا جائے۔ ‏See 67

عن حمران مولى عثمان أن عثمان بن عفان رضي الله عنه دعا بوضوء فتوضأ…  ثم غسل رجله اليمنى إلى الكعبين ثلاث مرات ثم غسل اليسرى مثل ذلك ثم قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ نحو وضوئي هذا (صحيح مسلم، الرقم: 226)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لیے ‏پانی منگوایا اور وضو کرنا شروع کیا (یہاں تک کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں پیر کو ٹخنوں تک تین بار دھویا پھر بائیں پیر کو اسی طرح ‏‏(تین بار) دھویا (وضو کے اختتام پر) آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں ‏نے وضو کیا ہے۔

(۱۸) پیر کی انگلیوں کا بائیں ہاتھ کی انگلی سے خلال کرنا۔ دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے خلال شروع کیا جائے اور بائیں پیر کی چھوٹی انگلی پر ختم کیا جائے۔ [27]

عن المستورد بن شداد رضي الله عنه قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا توضأ دلك أصابع رجليه بخنصره (سنن الترمذي، الرقم: 40)[28]

حضرت مستورد بن شدّاد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے دورانِ وضو اپنے پاؤں کی انگلیوں کا اپنے ‏‏(بائیں ہاتھ کی) چھوٹی انگلی سے خلال کیا۔‏

(۱۹) جب وضو مکمل ہو جائے، تو کلمۂ شہادت پڑھنا (اگر آپ کھلی جگہ میں ہیں، تو کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھیں)۔‏ ‎نیز احادیث مبارکہ میں وارد دیگر مسنون ‏دعائیں پڑھنا۔

ذیل میں کچھ مسنون دعائیں نقل کی جاتی ہیں، جو وضو کے اختتام پر پڑھی جائیں:‏

پہلی دعا:‏

جو شخص مندرجہ  ذیل دعا  پڑھےگا، اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے  کھلیں گے، وہ ان میں سے  جس  دروازہ سے چاہے، جنت  میں داخل ہو سکتا ہے:[29]

أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِيْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِيْنَ

میں گواہی دیتا ہوں کہ  اللہ کے علاوہ  کوئی  معبود نہیں ہے ۔ وہ تنہا ہیں ۔ ان کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ‏کے بندے اور رسول ہیں ۔اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو خوب توبہ کرنے والے ہیں اور خوب پاک ہیں ۔

دوسری دعا : ‏

جو شخص وضو کے بعد مندرجہ ذیل دعا پڑھے گا ، اس کے لیے اس کا ثواب ایک کاغذ میں لکھا جائے گا اور اس  پر مہر لگایا جائےگا پھر وہ کاغذ قیامت تک محفوظ  رکھا جائے گا ۔: [30]

سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إلٰهَ إلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إلَيْكَ

اے اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے ۔ آپ ہی کے لیے تعریف ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔میں آپ سے ‏مغفرت  طلب کرتا ہوں اور آپ کے سامنے توبہ کرتا ہوں ۔

(۲۰) ترتیب سے وضو کرنا ۔ [31]

(۲۱) دائیں اعضا کو بائیں اعضا سے پہلے دھونا۔ [32]

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لبستم وإذا توضأتم فابدءوا بأيامنكم (سنن أبي داود، الرقم: 4141)[33]

Hazrat Abu Hurairah I reports that Hazrat Rasulullah H said, “When you wear a garment and when you perform wudhu, then commence from your right limbs”.

عن عائشة رضي الله عنها قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم ليعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله (صحيح البخاري، الرقم: 168)[34]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب  جوتا پہنتے  یا  کنگھی کرتے یا وضو کرتے یا اور دوسرے کام کرتے (یعنی ایسے  کام ‏جن کا  تقاضا یہ ہے کہ دائیں  جانب سے انجام دیا جائے ۔جیسے مسجد اور کعبہ شریف  میں داخل ہونا، کپڑا پہننا ،کسی کو کوئی چیز  دینے یا کسی سے کوئی چیز  ‏لینا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے کہ آپ دائیں ہاتھ سے شروع کرے ۔

(۲۲)ہر عضو  کو اچھی طرح  رگڑنا     تاآں کہ اس بات کا یقین ہو جائے کہ پانی ہر عضو کو پہنچ گیا ہے ۔‏[35]

(۲۳)تمام اعضا کو پے درپے، ایک عضو کو دوسرے عضو کے بعد بغیر کسی تاخیر کے دھونا۔ ‏[36]

(۲۴)وضو کے دوران دنیوی امور کے متعلق بات  چیت نہ کرنا۔ [37]

(۲۵)وضو  میں اسراف یعنی پانی ضائع نہ کرنا۔ [38]

عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضأ فقال ما هذا السرف فقال أفي الوضوء إسراف قال نعم وإن كنت على نهر جار (سنن ابن ماجة، الرقم: 425)[39]

حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جب کہ وہ ‏وضو کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ یہ کیا اسراف ہے ؟  تو انہو ں نے جواب دیا : کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے ؟ تو رسول اللہ ‏صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں  (وضو  میں بھی اسراف ہوتا ہے) اگر چہ تم بہتی نہر کے پاس وضو کر رہے ہو ( پھر  بھی اس کا خیال رکھنا کہ پانی ‏ ضائع نہ ہو )۔

‏(۲۶) جس عضو کا وضو میں دھونا  فرض ہے ، اگر اس کا کو ئی  حصہ خشک رہ جائے ، تو وضو مکمل نہیں ہوگا۔ ‏[40]

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلا توضأ فترك موضع ظفر على قدمه فأبصره النبي صلى الله عليه وسلم فقال ارجع فأحسن وضوءك (صحيح مسلم، الرقم: 243)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور ناخن کے بقدر اپنےپاؤ ں کا حصہ  نہیں دھویا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‏کی اس پر نظر  پڑی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : جاؤ  ، اچھی طرح وضو  کرو۔ ‏

‏(۲۷) اگر آپ  کسی برتن سے وضو  کر رہے ہیں ، تو وضو کے بعد  بچا ہوا پانی کھڑے  ہو کر پی لیں ۔ ‏[41]

(۲۸)وضو کے بعد شرمگاہ کے ارد گرد  کپڑے پر پانی چھڑکنا ‎،   تاکہ بعد میں اگر یہ شک پیدا ہوا کہ وضو کے بعد پیشاب کے قطرے نکل آئے ہیں ، تو اس ‏طرح کرنے سے وہ شک دور ہو جائے گا ۔ البتہ اگر کسی کو یقین ہو کہ وضو کے بعد پیشاب کے قطرے نکلے ہیں،‏‎ ‎تو اس کے لیے کپڑے کے اس حصہ ‏کو  جس پر قطرہ  گرا ہے دھونا  ضروری ہوگا اور وضوکا  اعادہ لازم ہوگا۔ [42]

(۲۹)اگر وضو  کے بعد اعضاء کو خشک کرنے کے لیے تولیہ استعمال کرنے کی ضرورت ہو ، تو اس کا استعمال  کر سکتے ہیں ۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ‏رسول  اللہ     صلی  اللہ علیہ وسلم بسااوقات تولیہ کا استعمال فرماتے تھے اور بسااوقات  استعمال نہیں فرماتے تھے۔ [43]

اگر آپ ہمیشہ باوضو رہ سکتے  ہیں ، تو  با وضو رہا کر یں ؛ اس لیے کہ ہمہ وقت  باوضو  رہنا  ایمان کی علامت  ہے ۔ حالت وضو میں وفات پانے والے کو ‏شہید کا درجہ ملتا ہے ۔‎ ‎جب کوئی  وضو  کرتا ہے اور وضو سے  قبل دعا پڑھتا ہے ، تو جب تک کہ وہ با وضو  رہتا ہے، فرشتے  اس کے لیے نیک اعمال لکھتے ‏رہتے ہیں ۔[44]

(۳۰)وضو  کے بعد  اعضاء سوکھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا مستحب ہے، جو آدمی دو رکعت تحیۃ  الوضو پڑھتا ہے اس کے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ‏ہیں۔[45]

 


[1] (ومن آدابه) … (استقبال القبلة ودلك أعضائه) … (والجلوس فى مكان مرتفع) (الدر المختار 1/127)

[2] (البداية بالنية) أي نية عبادة لا تصح إلا بالطهارة كوضوء أو رفع حدث أو امتثال أمر (الدر المختار 1/105)

[3] (و) البداءة (بالتسمية) قولا وتحصل بكل ذكر لكن الوارد عنه عليه الصلاة والسلام باسم الله العظيم والحمد لله على دين الإسلام

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله لكن الوارد الخ) قال في الفتح لفظها المنقول عن السلف وقيل عن النبي صلى الله عليه وسلم باسم الله العظيم والحمد لله على الإسلام وقيل الأفضل بسم الله الرحمن الرحيم بعد التعوذ وفي المجتبى يجمع بينهما اهـ وفي شرح الهداية للعيني المروي عن رسول الله باسم الله والحمد لله رواه الطبراني في الصغير عن أبي هريرة بإسناد حسن اهـ (رد المحتار 1/109)

عن رباح بن عبد الرحمن بن أبي سفيان بن حويطب عن جدته عن أبيها قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه (سنن الترمذي، الرقم: 25)

[4] قال الهيثمي: رواه الطبراني في الصغير وإسناده حسن

[5] الفصل الثاني في سنن الوضوء وهي ثلاث عشرة على ما ذكر في المتون … ومنها غسل اليدين إلى الرسغين ثلاثا ابتداء (الفتاوى الهندية 1/6)

[6] صحيح البخاري، الرقم: 164

[7] (والسواك) سنة مؤكدة كما في الجوهرة عند المضمضة وقيل قبلها وهو للوضوء عندنا إلا إذا نسيه فيندب للصلاة كما يندب لاصفرار سن وتغير رائحة وقراءة قرآن وأقله ثلاث في الأعالي وثلاث في الأسافل (بمياه) ثلاثة (و) ندب إمساكه (بيمناه) وكونه لينا مستويا بلا عقد في غلظ الخنصر وطول شبر ويستاك عرضا لا طولا ولا مضطجعا فإنه يورث كبر الطحال ولا يقبضه فإنه يورث الباسور ولا يمصه فإنه يورث العمى ثم يغسله وإلا فيستاك الشيطان به ولا يزاد على الشبر وإلا فالشيطان يركب عليه ولا يضعه بل ينصبه وإلا فخطر الجنون قهستاني ويكره بمؤذ ويحرم بذي سم ومن منافعه أنه شفاء لما دون الموت ومذكر للشهادة عنده وعند فقده أو فقد أسنانه تقوم الخرقة الخشنة أو الأصبع مقامه

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله ويستاك عرضا لا طولا) أي لأنه يخرج لحم الأسنان وقال الغزنوي طولا وعرضا والأكثر على الأول بحر لكن وفق في الحلية بأنه يستاك عرضا في الأسنان وطولا في اللسان جمعا بين الأحاديث ثم نقل عن الغزنوي أنه يستاك بالمداراة خارج الأسنان وداخلها أعلاها وأسفلها ورؤوس الأضراس وبين كل سنين (رد المحتار 1/114)

وعند فقده أو فقد أسنانه تقوم الخرقة الخشنة أو الأصبع مقامه

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله أو الأصبع) قال في الحلية ثم بأي أصبع استاك لا بأس به والأفضل أن يستاك بالسبابتين يبدأ بالسبابة اليسرى ثم باليمنى وإن شاء استاك بإبهامه اليمنى والسبابة اليمنى يبدأ بالإبهام من الجانب الأيمن فوق وتحت ثم بالسبابة من الأيسر كذلك (رد المحتار 1/115)

[8] قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه وأقره الذهبي وقال على شرط مسلم

[9] ومنها حديث (يجزي من السواك الأصابع) رواه ابن عدي والدارقطني والبيهقي من حديث عبد الله بن المثنى عن النضر بن أنس عن أنس وفي إسناده نظر وقال الضياء المقدسي لا أرى بسنده بأسا وقال البيهقي المحفوظ عن ابن المثنى عن بعض أهل بيته عن أنس نحوه ورواه أيضا من طريق ابن المثنى عن ثمامة عن أنس ورواه أبو نعيم والطبراني وابن عدي من حديث عائشة وفيه المثنى بن الصباح ورواه أبو نعيم من حديث كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف عن أبيه عن جده وكثير ضعفوه وأصح من ذلك ما رواه أحمد في مسنده من حديث علي بن أبي طالب أنه دعا بكوز من ماء فغسل وجهه وكفيه ثلاثا وتمضمض فأدخل بعض أصابعه في فيه الحديث وفي آخره هذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم وروى أبو عبيد في كتاب الطهور عن عثمان أنه كان إذا توضأ يسوك فاه بإصبعه وروى الطبراني في الأوسط من حديث عائشة قلت يا رسول الله الرجل يذهب فوه أيستاك قال نعم قلت كيف يصنع قال يدخل أصبعه في فيه رواه من طريق الوليد بن مسلم ثنا عيسى بن عبد الله الأنصاري عن عطاء عنها وقال لا يروى إلا بهذا الإسناد قلت عيسى ضعفه ابن حبان وذكر له ابن عدي هذا الحديث من مناكيره (التلخيص الحبير 1/104)

قوله روى أن النبي صلى الله عليه وسلم كان عند فقد السواك يعالج بالإصبع لم أجده من فعله وإنما جاء من قوله فأخرج البيهقي عن أنس مرفوعا يجزىء من السواك الأصابع وذكره من طرق ووهاها وقد صحح أيضا بعض طرقه وروى الطبراني في الأوسط عن عائشة قالت قلت يا رسول الله الرجل يذهب فوه أيستاك قال نعم قلت فكيف يصنع قال يدخل إصبعه في فيه وإسناده ضعيف (الدراية في تخريج أحاديث الهداية صـ 18)

[10] (وغسل الفم) أي استيعابه ولذا عبر بالغسل أو للاختصار (بمياه) ثلاثة (والأنف) ببلوغ الماء المارن (بمياه) وهما سنتان مؤكدتان مشتملتان على سنن خمس الترتيب والتثليث وتجديد الماء وفعلهما باليمنى

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله بمياه) إنما قال بمياه ولم يقل ثلاثا ليدل على أن المسنون التثليث بمياه جديدة أفاده في المنح ط قوله (وتجديد الماء) أي أخذه ماء جديدا في كل مرة فيهما قوله (وفعلهما باليمنى) أي ويمخط ويستنثر باليسرى كما في المنية والمعراج (رد المحتار 1/116)

[11] وعن عائشة رضي الله عنها قالت كانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم اليمنى لطهوره وطعامه وكانت يده اليسرى لخلائه وما كان من أذى (سنن أبي داود، الرقم: 33)

عن أبي حية قال رأيت عليا توضأ فغسل كفيه حتى أنقاهما ثم مضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا وغسل وجهه ثلاثا وذراعيه ثلاثا ومسح برأسه مرة ثم غسل قدميه إلى الكعبين ثم قام فأخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم ثم قال أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم (سنن الترمذي، الرقم: 48)

(و) يسن (المبالغة في المضمضة) وهي إيصال الماء لرأس الحلق (و) المبالغة في (الاستنشاق) وهي إيصاله إلى ما فوق المارن (لغير الصائم) والصائم لا يبالغ فيها خشية إفساد الصوم لقوله عليه الصلاة والسلام بالغ في المضمضة والاستنشاق إلا أن تكون صائما

قال العلامة الطحطاوي رحمه الله (قوله وهي إيصال الماء لرأس الحلق الخ) … وفي الإستنشاق أن يجذب الماء بنفسه إلى ما اشتد من أنفه اهـ قال في البحر وهو الأولى والاستنثار مطلوب والإجماع على عدم وجوبه والمستحب أن يستثر بيده اليسرى ويكره بغير يد لأنه يشبه فعل الدابة وقيل لا يكره ذكره البدر العيني والأولى أن يدخل أصبعه في فمه وأنفه قهستاني (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ 70)

(و) كون (المضمضة والاستنشاق باليد اليمنى) لشرفها (والامتخاط باليسرى) لامتهانها (حاشية الطحطاوى على مراقي الفلاح صـ 76)

(ويستنثر ما فيها) أي في الأنف بقوة النفس بيده اليسرى فإن كان بباطنها شيء من الوسخ استعان بخنصر يده فأزال ما فيها (إتحاف السادة المتقين 2/355)

[12] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح

سنن أبي داود، الرقم: 142

[13] قال النووي في الأذكار (الرقم: 78): ترجم ابن السني لهذا الحديث باب ما يقول بين ظهراني وضوئه وأما النسائي فأدخله في باب ما يقول بعد فراغه من وضوئه وكلاهما محتمل

[14] وقد روى النسائي وابن السني في كتابيهما عمل اليوم والليلة بإسناد صحيح عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال أتيت رسول الله صلي الله عليه وسلم بوضوء فتوضأ فسمعته يدعو يقول اللهم اغفرلي ذنبي ووسع لي في داري وبارك لي في رزقي فقلت يا نبي الله سمعتك تدعو بكذا وكذا قال وهل تركن من شيئ ترجم ابن السني به باب ما يقول بين طهر إلى وضوئه أما النسائي فأدخله في باب ما يقوله بعد فراغه من وضوئه وكلاهما محتمل كذا في الأذكار (غنية المتملي صـ 32)

[15] (غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح (مرة) لأن الأمر لا يقتضي التكرار (وهو) … (من مبدأ سطح جبهته) أي المتوضىء بقرينة المقام (إلى أسفل ذقنه) أي منبت أسنانه السفلى (طولا) كان عليه شعر أو لا عدل من قولهم من قصاص شعره الجاري على الغالب إلى المطرد ليعم الأغم والأصلع والأنزع (وما بين شحمتي الأذنين عرضا) وحينئذ (فيجب غسل المياقي) وما يظهر من الشفة عند انضمامها (وما بين العذار والأذن) لدخوله في الحد وبه يفتى (الدر المختار 1/95)

(وتثليث الغسل) المستوعب

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله وتثليث الغسل) أي جعله ثلاثا فمجموع الثانية والثالثة سنة واحدة قال في الفتح وهو الحق لكن صحيح في السراج أنهما سنتان مؤكدتان قال في النهر وهو المناسب لاستدلالهم على السنية بأنه عليه الصلاة والسلام لما أن توضأ مرتين مرتين قال هذا وضوء من يضاعف له الأجر مرتين ولما أن توضأ ثلاثا قال هذا وضوئي ووضوء الأنبياء من قبلي فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم فجعل للثانية جزاء مستقلا وهذا يؤذن باستقلالها لا أنها جزء سنة حتى لا يثاب عليها وحدها اهـ وقيد بالغسل إذ لا يطلب تثليث المسح كما يأتي قوله (المستوعب) فلو غسل في المرة الأولى وبقي موضع يابس ثم في المرة الثانية أصاب الماء بعضه ثم في الثالثة أصاب الجميع لا يكون غسلا للأعضاء ثلاثا حلية عن فتاوي الحجة (رد المحتار 1/118)

)ومكروهه لطم الوجه) أو غيره (بالماء) تنزيها (الدر المختار 1/131-132)

عن ابن عباس أنه توضأ فغسل وجهه أخذ غرفة من ماء فمضمض بها واستنشق ثم أخذ غرفة من ماء فجعل بها هكذا أضافها إلى يده الأخرى فغسل بهما وجهه ثم أخذ غرفة من ماء فغسل بها يده اليمنى ثم أخذ غرفة من ماء فغسل بها يده اليسرى ثم مسح برأسه ثم أخذ غرفة من ماء فرش على رجله اليمنى حتى غسلها ثم أخذ غرفة أخرى فغسل بها رجله يعني اليسرى ثم قال هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ (صحيح البخاري، الرقم:140)

عن أبي أمامة وذكر وضوء النبي صلى الله عليه وسلم قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح المأقين قال وقال الأذنان من الرأس قال سليمان بن حرب يقولها أبو أمامة قال قتيبة قال حماد لا أدري هو من قول النبي صلى الله عليه وسلم أو من أبي أمامة يعني قصة الأذنين (سنن أبي داود، الرقم: 134)

[16] (وتخليل اللحية) لغير المحرم بعد التثليث ويجعل ظهر كفه إلى عنقه

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله وتخليل اللحية) هو تفريق شعرها من أسفل إلى فوق بحر وهو سنة عند أبي يوسف وأبو حنيفة ومحمد يفضلانه ورجح في المبسوط قول أبي يوسف كما في البرهان شرنبلالية وفي شرح المنية والأدلة ترجحه وهو الصحيح اهـ قال في الحلية والظاهر أن هذا كله في الكثة أما الخفيفة فيجب إيصال الماء إلى ما تحتها اهـ وجزم به الشرنبلالي في متنه قوله (لغير المحرم) أما المحرم فمكروه نهر قوله (بعد التثليث) أي تثليث غسل الوجه إمداد … ثم اعلم أن هذا التخليل باليد اليمنى كما صرح به في الحلية وهو ظاهر (رد المحتار 1/117)

[17] سكت عنه ثم المنذري بعده (مختصر سنن أبي داود 1/85)

سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (1/221) فالحديث حسن عنده

عن عثمان بن عفان رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخلل لحيته قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح (سنن الترمذي، الرقم: 31)

[18] (وغسل اليدين) أسقط لفظ فرادى لعدم تقييد الفرض بالانفراد (والرجلين) الباديتين السليمتين فإن المجروحتين والمستورتين بالخف وظيفتهما المسح (مرة) لما مر (مع المرفقين والكعبين) (الدر المختار 1/98)

(و) يسن البداءة بالغسل من (رؤوس الاصابع) فى اليدين والرجلين لأن الله تعالى جعل المرافق والكعبين غاية الغسل فتكون منتهى الفعل كما فعله النبى صلى الله عليه وسلم (مراقي الفلاح صـ 74)

انظر أيضا 64

 [19]الفصل الثاني في سنن الوضوء … ومنها تخليل الأصابع وهو إدخال بعضها في بعض بماء متقاطر وهذا سنة مؤكدة اتفاقا كذا في النهر الفائق هذا إذا وصل الماء إلى أثنائها وإن لم يصل بأن كانت منضمة فواجب كذا في التبيين ويغنى عنه إدخالها في الماء ولو غير جار والأولى في اليدين التشبيك وفي الرجلين أن يخلل بخنصر يده اليسرى خنصر رجله اليمنى ويختم بخنصر رجله اليسرى كذا في النهر الفائق ويدخل الإصبع من أسفل كذا في المضمرات (الفتاوى الهندية 1/7)

الفصل الثالث في المستحبات والمذكور منها في المتون اثنان الأول التيامن وهو أن يبدأ باليد اليمنى قبل اليسرى وبالرجل اليمنى قبل اليسرى وهو فضيلة على الصحيح وليس في أعضاء الطهارة عضوان لا يستحب تقديم الأيمن منهما على الأيسر إلا الأذنان ولو لم يكن له إلا يد واحدة أو بإحدى يديه علة ولا يمكنه مسحهما معا يبدأ بالأذن اليمنى ثم باليسرى كذا في الجوهرة النيرة (الفتاوى الهندية 1/8)

[20] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح

[21] (ومسح كل رأسه مرة) مستوعبة فلو تركه وداوم عليه أثم (وأذنيه) معا ولو (بمائه)

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله مستوعبة) هذا سنة أيضا كما جزم به في الفتح ثم نقل عن القنية أنه إذا داوم على ترك الاستيعاب بلا عذر يأثم قال وكأنه لظهور رغبته عن السنة قال الزيلعي وتكلموا في كيفية المسح والأظهر أن يضع كفيه وأصابعه على مقدم رأسه ويمدهما إلى القفا على وجه يستوعب جميع الرأس ثم يمسح أذنيه بأصبعيه اهـ وما قيل من أنه يجافي المسبحتين والإبهامين ليمسح بهما الأذنين والكفين ليمسح بهما جانبي الرأس خشية الاستعمال فقال في الفتح لا أصل له في السنة لأن الاستعمال لا يثبت قبل الانفصال والأذنان من الرأس (رد المحتار 1/121)

[22] قال البوصيري في الزوائد (1/150): إسناد حديث سلمة ضعيف محمد بن الحارث ذكره ابن حبان في الثقات وقال يخطئ ويحيى بن راشد ضعيف

لهذا الحديث شاهد من حديث أبي حية قال رأيت عليا توضأ فغسل كفيه حتى أنقاهما ثم مضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا وغسل وجهه ثلاثا وذراعيه ثلاثا ومسح برأسه مرة ثم غسل قدميه إلى الكعبين ثم قام فأخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم ثم قال أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم (سنن الترمذي، الرقم: 48)

[23] (ومسح كل رأسه مرة) مستوعبة فلو تركه وداوم عليه أثم (وأذنيه) معا ولو (بمائه) (الدر المختار 1/120)

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله وأذنيه) أي باطنهما بباطن السبابتين وظاهرهما بباطن الإبهامين قهستاني قوله (معا) أي فلا تيامن فيهما كما سيذكره (رد المحتار 1/121)

حدثنا محمود بن خالد ويعقوب بن كعب الأنطاكي لفظه قالا حدثنا الوليد بن مسلم عن حريز بن عثمان عن عبد الرحمن بن ميسرة عن المقدام بن معديكرب قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فلما بلغ مسح رأسه وضع كفيه على مقدم رأسه فأمرهما حتى بلغ القفا ثم ردهما إلى المكان الذى بدأ منه قال محمود قال أخبرنى حريز

حدثنا محمود بن خالد وهشام بن خالد المعنى قالا حدثنا الوليد بهذا الإسناد قال ومسح بأذنيه ظاهرهما وباطنهما زاد هشام وأدخل أصابعه فى صماخ أذنيه (سنن أبي داود، الرقم: 122-123)

ومن الأدب دلك أعضائه وإدخال خنصره صماخي أذنيه (الفتاوى الهندية 1/9)

(قوله ومسح الأذنين) هو سنة مؤكدة ويمسح باطنهما وظاهرهما وهو أن يدخل سبابتيه في صماخيه وهما ثقبا الأذنين ويديرهما في زوايا أذنيه ويدير إبهاميه على ظاهر أذنيه (الجوهرة النيرة 1/6)

[24] قال الشيخ تقي الدين في الإمام: وهذا الحديث صحيح عند من يصحح حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده لصحة الإسناد إلى عمرو انتهى (نصب الراية، الرقم: 140)

أخرجه الأربعة إلا الترمذي وإسناده قوي (الدراية، الرقم: 10)

[25] (و) يسن (مسح الرقبة) لأنه صلى الله عليه وسلم توضأ وأومأ بيديه من مقدم رأسه حتى بلغ بهما أسفل عنقه من قبل قفاه و (لا) يسن مسح (الحلقوم) بل هو بدعة (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ 74)

الفصل الثالث في المستحبات  والمذكور منها في المتون اثنان الأول التيامن وهو أن يبدأ باليد اليمنى قبل اليسرى وبالرجل اليمنى قبل اليسرى وهو فضيلة على الصحيح وليس في أعضاء الطهارة عضوان لا يستحب تقديم الأيمن منهما على الأيسر إلا الاذنان ولو لم يكن له إلا يد واحدة أو بإحدى يديه علة ولا يمكنه مسحهما معا يبدأ بالاذن اليمنى ثم باليسرى كذا في الجوهرة النيرة والثاني مسح الرقبة وهو بظهر اليدين (الفتاوى الهندية 1/8)

(ومستحبه) ويسمى مندوبا وأدبا وفضيلة وهو ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم مرة وتركه أخرى وما أحبه السلف (التيامن) … (ومسح الرقبة) بظهر يديه (لا الحلقوم) لأنه بدعة

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله ومسح الرقبة) هو الصحيح وقيل إنه سنة كما في البحر وغيره قوله (بظهر يديه) أي لعدم استعمال بلتهما بحر فقول المنية بماء جديد لا حاجة إليه كما في شرحها الكبير وعبر في المنية بظهر الأصابع ولعله المراد هنا قوله (لأنه بدعة) إذ لم يرد في السنة (رد المحتار 1/124)

[26] حديث ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال (من توضأ ومسح عنقه وقي الغل يوم القيامة) قال أبو نعيم في تاريخ أصبهان ثنا محمد بن أحمد ثنا عبد الرحمن بن داود ثنا عثمان بن خرزاد ثنا عمر بن محمد بن الحسن ثنا محمد بن عمرو الأنصاري عن أنس بن سيرين عن ابن عمر أنه كان إذا توضأ مسح عنقه ويقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من توضأ ومسح عنقه لم يغل بالأغلال يوم القيامة وفي البحر للروياني لم يذكر الشافعي مسح العنق وقال أصحابنا هو سنة وأنا قرأت جزءا رواه أبو الحسين بن فارس بإسناده عن فليح بن سليمان عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من توضأ ومسح بيديه على عنقه وقي الغل يوم القيامة وقال هذا إن شاء الله حديث صحيح قلت بين ابن فارس وفليح مفازة فينظر فيها (التلخيص الحبير 1/136)

[27] (و) تخليل (الأصابع) اليدين بالتشبيك والرجلين بخنصر يده اليسرى بادئا بخنصر رجله اليمنى وهذا بعد دخول الماء خلالها فلو منضمة فرض

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله والرجلين الخ) ذكر هذه الكيفية في المعراج وغيره وقال بذلك ورد الخبر وكذا ذكرها القدوري مروية مع تقييد التخليل بكونه من أسفل وتعقب في الفتح ورود هذه الكيفية بقوله والله أعلم به ومثله فيما يظهر أمر اتفاقي لا سنة مقصودة قال تلميذه ابن أمير حاج الحلبي في الحلية شرح المنية لكن الذي في سنن ابن ماجه عن المستورد بن شداد قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فخلل أصابع رجليه بخنصره وأما كونه بخنصر يده اليسرى وكونه من أسفل فالله أعلم به ويشكل كونه بخنصر اليسرى أنه من الطهارة والمستحب في فعلها اليمين ولعل الحكمة في كونه بالخنصر كونها أدق الأصابع فهي بالتخليل أنسب وفي كونه من أسفل أنه أبلغ في إيصال الماء اهـ ثم نقل ندب هذه الكيفية عن الشافعي قلت ويجاب عن قوله ويشكله الخ بأن الرجلين محل الوسخ والقذر ولذا سيذكر الشارح أن من الآداب غسلهما باليسار (رد المحتار 1/117)

انظر أيضا 68

[28] وقال الترمذي رحمه الله: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث ابن لهيعة

وعن المستورد بضم الميم وسكون السين وفتح التاء فوقها نقطتان وبكسر الراء وبالدال المهملة كذا في جامع الأصول قال في التقريب له ولأبيه صحبة ابن شداد قال الطيبي قرشي من بني محارب بن فهر عداده في أهل الكوفة ثم سكن مصر ويعد فيهم يقال إنه كان غلاما يوم قبض رسول الله إلا أنه سمع منه ووعى عنه زاد المصنف وقال وروى (المستورد) عنه (عن النبي صلى الله علي وسلم) وروى عنه (المستورد) جماعة قال رأيت رسول الله إذا توضأ يدلك أصابع رجليه أي يخلل كما في رواية أحمد في مسنده بخنصره كما تقدم قال الأبهري لأنه أصغر والخدمة بالصغار أليق والدخول في الخلال أيسر وقال ابن حجر إن أراد المستورد بالدلك التخليل فهو حجة لما مر من ندبه بالخنصر وخصت اليسرى بذلك لأنها أليق به إذ لا تكرمة في ذلك بالنسبة للرجلين (مرقاة المفاتيح 2/116)

(بخنصره) أي بخنصر يده اليسرى قوله (هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث ابن لهيعة) غرابة هذا الحديث والذي قبله ترجع إلى الإسناد فلا ينافي الحسن قاله ابن سيد الناس وقد شارك ابن لهيعة في روايته عن يزيد بن عمرو الليث وعمرو بن الحارث فالحديث إذن صحيح سالم عن الغرابة كذا في النيل (تحفة الأحوذي 1/125)

[29] عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين فتحت له ثمانية أبواب الجنة يدخل من أيها شاء (سنن الترمذي، الرقم: 55)

انظر أيضا: صحيح مسلم، الرقم: 234 ، مجمع الزوائد، الرقم: 1229، 1230

[30] عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قرأ سورة الكهف كانت له نورا يوم القيامة من مقامه إلى مكة ومن قرأ عشر آيات من آخرها ثم خرج الدجال لم يضره ومن توضأ فقال سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك كتب في رق ثم جعل في طابع فلم يكسر إلى يوم القيامة رواه الطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح إلا أن النسائي قال بعد تخرجه في اليوم والليلة هذا خطأ والصواب موقوفا ثم رواه من رواية الثوري وغندر عن شعبة موقوفا (مجمع الزوائد، الرقم: 1231)

[31] (و) يسن (الترتيب) سنة مؤكدة فى الصحيح وهو (كما نص الله فى كتابه) (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ 73)

[32] الفصل الثالث في المستحبات والمذكور منها في المتون اثنان الأول التيامن وهو أن يبدأ باليد اليمنى قبل اليسرى وبالرجل اليمنى قبل اليسرى وهو فضيلة على الصحيح وليس في أعضاء الطهارة عضوان لا يستحب تقديم الأيمن منهما على الأيسر إلا الأذنان ولو لم يكن له إلا يد واحدة أو بإحدى يديه علة ولا يمكنه مسحهما معا يبدأ بالأذن اليمنى ثم باليسرى كذا في الجوهرة النيرة (الفتاوى الهندية 1/8)

[33] عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا لبستم وإذا توضأتم فابدءوا بأيامنكم حديث حسن رواه أبو داود والترمذي وأبو عبد الله محمد بن يزيد هو ابن ماجه وأبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي (الأذكار للإمام النووي، الرقم: 124)

[34] (يحب التيمن) أي البدء بالأيامن من اليد والرجل والجانب الأيمن لكن التيمن في اللغة المشهورة هو التبرك بالشيء من اليمن وهو البركة في القاموس اليمن بالضم البركة وفي مختصر النهاية اليمن البركة وضده الشؤم والتيمن الابتداء في الأفعال باليد اليمنى والرجل اليمنى والجانب الأيمن (ما استطاع) أي ما أمكنه وقدر عليه (في شأنه) أي في أمره (كله) تأكيد والمراد الأمور المكرمة (مرقاة المفاتيح 2/111-112)

[35] (ومن آدابه) … (استقبال القبلة ودلك أعضائه) في المرة الأولى (الدر المختار 1/124)

والدلك أيضا سنة (غنية المتملي صـ 27)

[36] الفصل الثاني في سنن الوضوء … ومنها الموالاة وهي التتابع وحده أن لا يجف الماء على العضو قبل أن يغسل ما بعده في زمان معتدل ولا اعتبار بشدة الحر والرياح ولا شدة البرد ويعتبر أيضا استواء حالة المتوضئ كذا في الجوهرة النيرة وإنما يكره التفريق في الوضوء إذا كان بغير عذر أما إذا كان بعذر بأن فرغ ماء الوضوء فيذهب لطلب الماء أو ما أشبه ذلك فلا بأس بالتفريق على الصحيح وهكذا إذا فرق في الغسل والتيمم كذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية 1/8)

[37] (ومن آدابه) … (و) عدم (التكلم بكلام الناس) الا لحاجة تفوته (الدر المختار 1/126)

[38] وفي الأصل من الادب أن لا يسرف في الماء ولا يقتر كذا في الخلاصة وهذا إذا كان ماء نهر أو مملوكا له فإن كان ماء موقوفا على من يتطهر أو يتوضأ حرمت الزيادة والإسراف بلا خلاف كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية 1/8)

[39] في الزوائد للبوصيري (1/147): إسناده ضعيف لضعف حيي بن عبد الله وابن لهيعة

لهذا الحديث شاهد صحيح من حديث أبي نعامة أن عبد الله بن مغفل سمع ابنه يقول اللهم إني أسألك القصر الأبيض عن يمين الجنة إذا دخلتها فقال أي بني سل الله الجنة وتعوذ به من النار فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنه سيكون في هذه الأمة قوم يعتدون في الطهور والدعاء (سنن أبي داود، الرقم: 96) وصححه ابن حبان (الرقم: 6763)

[40] في فتاوى ما وراء النهر إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز (الفتاوى الهندية 1/4)

[41] عن أبي حية قال رأيت عليا رضي الله عنه توضأ فغسل كفيه حتى أنقاهما ثم مضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا وغسل وجهه ثلاثا وذراعيه ثلاثا ومسح برأسه مرة ثم غسل قدميه إلى الكعبين ثم قام فأخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم ثم قال: أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم (سنن الترمذي، الرقم: 48)

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (ومن آدابه) … (… وأن يشرب بعده من فضل وضوئه) كماء زمزم (مستقبل القبلة قائما) أو قاعدا وفيما عداهما يكره قائما تنزيها (الدر المختار 1/129)

[42] عن الحكم أو ابن الحكم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بال ثم توضأ ونضح فرجه (سنن أبي داود، الرقم: 168)

(قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا بال توضأ ونضح فرجه) أي ورش إزراه بقليل من الماء أو سرواله به لدفع الوسوسة تعليما للأمة (مرقاة المفاتيح 2/77)

وزاد في الخزائن … ورش الماء على الفرج وعلى السروال بعد الوضوء (رد المحتار 1/125)

[43] عن ابن عباس رضي الله عنهما عن خالته ميمونة رضي الله عنها قالت وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم غسلا يغتسل من الجنابة فأكفأ الإناء على يده اليمنى فغسلها مرتين أو ثلاثا ثم صب على فرجه فغسل فرجه بشماله ثم ضرب بيده الأرض فغسلها ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه ويديه ثم صب على رأسه وجسده ثم تنحى ناحية فغسل رجليه فناولته المنديل فلم يأخذه وجعل ينفض الماء عن جسده (سنن أبي داود، الرقم: 245)

عن سلمان الفارسي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فقلب جبة صوف كانت عليه فمسح بها وجهه (سنن ابن ماجة، الرقم: 468)

قال البوصيري في الزوائد (1/158): إسناده صحيح ورواته ثقات وفي سماع محفوظ من سليمان نظر

(ومن آدابه) … والتمسح بمنديل

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله (قوله والتمسح بمنديل) ذكره صاحب المنية في الغسل وقال في الحلية ولم أر من ذكره غيره وإنما وقع الخلاف في الكراهة ففي الخانية ولا بأس للمتوضئ والمغتسل روي عن رسول صلى الله عليه وسلم أنه كان يفعله ومنهم من كره ذلك ومنهم من كرهه للمتوضئ دون المغتسل والصحيح ما قلنا إلا أنه ينبغي أن لا يبالغ ولا يستقصي فيبقي أثر الوضوء على أعضائه اهـ وكذا وقع بلفظ لا بأس في خزانة الأكمل وغيرها وعزاه في الخلاصة إلى الأصل اهـ ما في الحلية (رد المحتار 1/131)

[44] عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم استقيموا ولن تحصوا واعلموا أن من أفضل أعمالكم الصلاة ولا يحافظ على الوضوء إلا مؤمن (سنن ابن ماجة، الرقم: 278)

[45] عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لبلال عند صلاة الغداة يا بلال حدثني بأرجى عمل عملته عندك في الإسلام منفعة فإني سمعت الليلة خشف نعليك بين يدي في الجنة قال بلال: ما عملت عملا في الإسلام أرجى عندي منفعة من أني لا أتطهر طهورا تاما في ساعة من ليل ولا نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب الله لي أن أصلي (صحيح مسلم، الرقم: 2458)

عن عقبة بن عامر رضي الله عنه قال كانت علينا رعاية الإبل فجاءت نوبتي فروحتها بعشي فأدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما يحدث الناس فأدركت من قوله ما من مسلم يتوضأ فيحسن وضوءه ثم يقوم فيصلي ركعتين مقبل عليهما بقلبه ووجهه إلا وجبت له الجنة قال فقلت ما أجود هذه فإذا قائل بين يدي يقول التي قبلها أجود فنظرت فإذا عمر قال إني قد رأيتك جئت آنفا قال ما منكم من أحد يتوضأ فيبلغ أو فيسبغ الوضوء ثم يقول أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء (صحيح مسلم، الرقم: 234)

عن ثعلبة بن عباد عن أبيه رضي الله عنه قال ما أدري كم حدثنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم أزواجا أو أفرادا قال ما من عبد يتوضأ فيحسن الوضوء فيغسل وجهه حتى يسيل الماء على ذقنه ثم يغسل ذراعيه حتى يسيل الماء على مرفقيه ثم غسل رجليه حتى يسيل الماء من كعبيه ثم يقوم فيصلي إلا غفر له ما سلف من ذنبه رواه الطبراني في الكبير بإسناد لين (الترغيب والترهيب، الرقم: 301)

وقال الهيثمي في مجمع الزوائد (الرقم: 1134): رواه الطبراني في الكبير ورواه بإسناد آخر فقال عن ثعلبة بن عمارة وقال هكذا رواه إسحاق الدبري عن عبد الرزاق ووهم في اسمه والصواب ثعلبة بن عباد ورجاله موثقون

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …