باغِ محبّت (سولہویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام میں عورت کا کردار

الله تعالیٰ نے دنیا کو سب سے بہترین شکل میں پیدا کیا ہے اور اس کا نظام اتنا مستحکم بنایا ہے کہ دنیا کی ہر چیز مکمل ومرتّب انداز میں الله تعالیٰ کی مشیّت کے مطابق چل رہی ہے۔ سورج، چاند اور شب وروز کی گردش، آسمان سے بارش کا نزول اور موسموں کی تبدیلی یہ ساری چیزیں الله تعالیٰ کی بے پناہ قدرت کی نشانیاں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر مخلوق کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ الله تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل اور بہتر مخلوق ”انسان“ ہے جس کو الله تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے احکام کی بجا آوری کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے مردوں اور عورتوں کو کچھ مخصوص امور کا مکلّف بنایا ہے اور ان کے کندھوں پر کچھ خاص ذمہ داریاں رکھی ہیں جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہے۔

اسلام میں عورت کا کردار کیا ہے؟

اسلام میں عورت کا کردار کیا ہے؟ اسلام نے عورت کو تین امور کا پابند بنایا ہے جو اس کا کردار ہے اور اسی میں اس کی کامیابی مضمر ہے:

(۱) الله تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت وفرماں برداری کرنا۔

(۲) گھر کی چہار دیواری میں سکونت اور اجنبیوں سے پردہ کرنا۔

(۳) شوہر کے حقوق کی ادائیگی کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھےگی، رمضان کا روزہ رکھےگی، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرےگی اور اپنے شوہر کی اطاعت کرےگی، تو قیامت کے روز اس سے کہا جائےگا کہ تم جنّت کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہو، داخل ہو جاؤ۔“ (مجمع الزوائد)

الله تعالیٰ کی اطاعت

ہر عورت پر لازم ہے کہ وہ ہمہ وقت الله تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں رہے اور الله تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کو تمام چیزوں پر ترجیح دے، اسی طرح اس کو اس بات کا کامل یقین ہونا چاہیئے کہ الله تعالیٰ ہی اس کے خالق ورازق ہیں اور وہی اس کو دنیا اور آخرت میں کامیابی اور خوشی عطا کرنے والے ہیں؛ لہذا تمام معاملات میں اس کو چاہیئے کہ وہ الله تعالیٰ کے حکم کو سب سے اوپر رکھے اور ہر اس عمل سے اجتناب کرے جس میں الله تعالیٰ کی نافرمانی ہو اور جس سے الله تعالیٰ ناراض ہو جائے؛ کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے:

لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق

(الله تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی ذرّہ برابر اطاعت نہیں کرنی چاہیئے)۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

گھر کی چہار دیواری میں سکونت اور اجنبیوں سے پردہ

عورت کا الله تعالیٰ کے نزدیک مقبول ومحبوب بننے کے لئے اور دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے کے لئے اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے گھر میں رہے اور ضرورت کے بغیر وہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے ازواجِ مطہّرات اور امت محمدیہ کی عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

وَقَرْنَ فِى بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجٰهِلِيَّةِ الْأُولٰى (سورة الأحزاب: ٣٣)

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنے آپ کو دکھاتی مت پھرو۔

اور ہمارے آقا صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: بے شک عورت کو اجنبی لوگوں کی نگاہوں سے مستور رہنا چاہیئے۔ جب عورت اپنے گھر سے نکلتی ہے، تو شیطان اس کو جھانک کر دیکھتا ہے۔ (مسند بزار)

امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ کی صاحب زادیاں اور آپ کی دیگر محرم خواتین جمعہ یا جماعت کی نماز میں شرکت نہیں کرتی تھیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ (اختلاف الحدیث)۔

صحابیات رضی الله عنہن کی عادتِ شریفہ تھی کہ جب وہ کسی ضرورت کی بنا پر اپنے گھروں سے نکلتی تھیں، تو اپنے بدن کو پورے طور پر ڈھانپ لیتی تھیں اور مردوں کے ساتھ بالکل نہیں ملتی تھیں یہاں تک کہ طواف میں بھی عورتوں کا مردوں سے اختلاط نہیں ہوتا تھا۔ امام بخاری رحمہ الله نے اپنی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ جب عورتیں طواف کرتی تھیں، تو عورتیں کناروں پر چلتی تھیں اور مردوں سے ہرگز نہیں ملتی تھیں۔

شوہر کی اطاعت اور اس کے حقوق کی ادائیگی

حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں جبکہ آپ صلی الله علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کر کے عرض کیا:

اے الله کے رسول ! ہم عورتیں گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہیں اور اجنبیوں کی نگاہوں سے اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہیں، ہم اپنے شوہر کی خواہشات کو پوری کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو جنتی ہیں۔ مردوں کو ہم پر یہ فضیلت دی گئی ہیں کہ وہ جمعہ اور جماعت میں شریک ہوتے ہیں جبکہ ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھتی ہیں۔ مرد مریضوں کی عیادت کرتے ہیں، نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں، حج کو جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد کرتے ہیں۔ جب مرد حج یا عمرہ کے لئے جاتے ہیں یا رباط کے لئے (اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے) جاتے ہیں، تو ان تمام صورتوں میں ہم گھر میں بیٹھ کر ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، ان کے کپڑوں کو سلتی ہیں، ان کی اولاد کو پالتی ہیں؛ تو اے الله کے رسول! کیا ہمیں اپنے شوہروں کے ثواب میں سے کوئی حصہ ملےگا یا نہیں؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ان کے سوال سے بے انتہا خوشی اور مسرت ہوئی اور ان سے فرمایا کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اچھے اخلاق بتائے اور شوہر کی مرضی پر چلتی ہے اور جو نیک کام شوہر کرتا ہے اس کو ساتھ دیتی ہے اور اس کی مدد کرتی ہے، تو مرد کو جس قدر ثواب ملتا ہے اسی قدر ثواب اس کی بیوی کو بھی ملتا ہے۔ (شعب الایمان)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کے لئے دینی اعتبار سے ترقی اور آخرت میں بے پناہ اجر وثواب کی تحصیل کے بہت سے مواقع ہیں؛ لیکن انہیں یہ دولت صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہ اپنے کردار کو ادا کرے جن کو الله تعالیٰ نے اس کے لئے پسند کیا ہے اور وہ الله تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی رہیں۔

الله تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17267


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …