کارخانہ کے غیر تیار شدہ مال پر زکوٰۃ

سوال:- میرے پاس کپڑا تیار کرنے کا کارخانہ ہے۔ میں سب سے پہلے بیرون ممالک سے سوت حاصل کرتا ہوں اور پھر اسی سوت سے کپڑے تیار کرتا ہوں۔ جب کپڑے تیار ہوتے ہیں، تو میں ان کپڑوں کو بعض مخصوص کمپنیوں کو دس فیصد کے نفع کے ساتھ فروخت کرتا ہوں۔

نیز میں کپڑوں کو بیس فیصد کے نفع کے ساتھ ہول سیل (wholesale) بھی کرتا ہوں، اس کے علاوہ بازار میں میری ایک دکان ہے جہاں میں تجارت کرتا ہوں اور یہی کپڑے لوگوں کو بازاری قیمت کے بدلے فروخت کرتا ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ زکوٰۃ نکالنے کے وقت میں اپنے مال کی قیمت کس حساب سے لگاؤں؟ کارخانے کے دام سے دس فیصد کے ساتھ یا ہول سیل کے دام سے بیس فیصد کے ساتھ یا بازار کی قیمت کے حساب سے؟

الجواب حامدًا و مصلیًا

آپ نے چوں کہ سوت (دھاگا) کو تجارت کی نیّت سے خریدا ہے، اس لئے اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت سوت کی جو بازاری قیمت ہے، اس حساب سے آپ سوت کی زکوٰۃ ادا کرے۔

اسی طرح سوت سے جو کپڑے تیار کئے جائیں گے، ان سب کی زکوٰۃ بازاری قیمت کے حساب سے ادا کی جائےگی۔

کپڑے کی بازاری قیمت سے مراد وہ قیمت ہے جس کے بدلہ وہ کپڑے بازار کی اکثر جگہوں میں بکتے ہیں، اس کے حساب سے اس کی قیمت لگا کر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائےگی۔

اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آدمی کارخانہ چلاتا ہے یا ہول سیلر ہے یا بازار میں تجارت کرنے والا ہے، چوں کہ سب یہی کپڑے فروخت کر رہے ہیں، تو سب پر ضروری ہے کہ وہ کپڑوں کی قیمت بازاری قیمت کے حساب سے قیمت لگا کر اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔

فقط واللہ تعالی اعلم

(أو نية التجارة ) في العروض إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة (الدر المختار ۲/۲٦۷)

وذكر محمد فى الرقيات أنه يقوم فى البلد الذى حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقدا فيما بينهم يعني غالب نقد ذلك البلد ولا ينظر الى موضع الشراء ولا الى موضع المالك وقت حولان الحول وروي عن أبي يوسف أنه يقوم بما اشترى به وفى الخلاصة إن كان الثمن من النقود لأنه أبلغ فى معرفة المالية وإلا فبالنقد الغالب وبه قال الشافعى وفى الولوالجية يقوم يوم حال عليها الحول بالغة ما بلغت بعد أن كات قيمتها فى أول الحول مائتين ويزكى مائتى درهم خمسة دراهم (الفتاوى التاتارخانية ۱٦۵/۳)

الزكاة واجبة في عروض التجارة بظاهر قوله تعالى خذ من أمولهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم إن صلوتك سكن لهم والله سميع عليم واسم المال يتناول عروض التجارة لو خلينا وظاهر الآية لكنا نوجب الزكاة في العروض وإن لم تكن للتجارة لكن ترك العمل بظاهره ههنا إذا لم تكن للتجارة بالإجماع ولا إجماع فيما إذا كان للتجارة فتبقى على ظاهرها (المحيط البرهاني ۲/۲٤٦)

فتاوى محموديه ۱٤/۱۳٠

دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین

اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ

Source: http://muftionline.co.za/node/73

Check Also

صاحب اہل وعیال پر حج کی فرضیت کے لیے کتنے مال کا مالک ہونا ضروری ہے؟

سوال:- صاحب اہل وعیال کے پاس کتنا مال ہو، تو اس پر حج فرض ہوگا؟