زکوٰۃ کی تاریخ کیسے متعین کرنا

سوال:- زکوٰۃ کب فرض ہوگی اور زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ کیسے متعین کی جائےگی؟

الجواب حامدًا و مصلیًا

جب کوئی شخص زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر مال کا مالک ہو جائے اور وہ مال اس کے پاس پورا ایک سال تک رہے، اس دن سے جب سے اس کو ملا (اسلامی سال کے اعتبار سے)، تو اس مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

مثال کے طور پر زکوٰۃ کا نصاب پینتیس ہزار روپئے ہیں۔ زید اسلامی سال سن ١٤٤٣ ہجری کے ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو پینتیس ہزار روپئے کا مالک بنا اور یہ روپئے پورے اسلامی سال اس کی ملکیت میں رہے، تو یکم محرم سن ١٤٤٤ ہجری کو اس مال (پینتیس ہزار روپئے) پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر دورانِ سال مال کم ہو جائے، مثال کے طور پر پینتیس ہزار روپئے میں سے پانچ ہزار روپیہ کم ہو جائے؛ لیکن سال کے آخر میں وہ مال پینتیس ہزار یا اس سے زیادہ ہو جائے، تو زکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر سال کے دوران پورا مال پینتیس ہزار ختم ہو جائے (یعنی کچھ بھی باقی نہ رہے)، تو ایک سال کے بعد اگرچہ زکوٰۃ کا پورا نصاب حاصل کر لے، تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔ ہاں، مال کے ختم ہونے کے بعد جس وقت سے اس کو دوبارہ زکوٰۃ کا نصاب ملا، جب ایک سال اس مال پر پورا ہو جائے، تو اس مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

فقط واللہ تعالی اعلم

(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول

قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: قوله (وشرط كمال النصاب إلخ) أي ولو حكما لما في البحر والنهر لو كان له غنم للتجارة تساوي نصابا فماتت قبل الحول فدبغ جلودها وتم الحول عليها كان عليه الزكاة إن بلغت نصابا ولو تخمر عصيره الذي للتجارة قبل الحول ثم صار خلا وتم الحول عليه وهو كذلك لا زكاة عليه لأن النصاب في الأول باق لبقاء الجلد لتقومه بخلافه في الثاني وروى ابن سماعة أنه عليه الزكاة في الثاني أيضا قوله (للانعقاد) أي انعقاد السبب أي تحققه بتملك النصاب ط قوله (للوجوب) أي لتحقق الوجوب عليه ط قوله (فلو هلك كله) أي في أثناء الحول بطل الحول حتى لو استفاد فيه غيره استأنف له حولا جديدا وتقدم حكم هلاكه بعد تمام الحول في زكاة الغنم قال في النهر ومنه أي من الهلاك ما لو جعل السائمة علوفة لأن زوال الوصف كزوال العين (رد المحتار ۲/۳٠۲)

ولو هلك كله بطل الحول (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۷۱۷)

العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية (الفتاوى الهندية ۱/۱۷۵)

وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية (الفتاوى الهندية ۱/۱۷۵)

دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین

اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ

Source: http://muftionline.co.za/node/31

Check Also

صاحب اہل وعیال پر حج کی فرضیت کے لیے کتنے مال کا مالک ہونا ضروری ہے؟

سوال:- صاحب اہل وعیال کے پاس کتنا مال ہو، تو اس پر حج فرض ہوگا؟