‏(‏۱٦‏)‏ جنازہ کے متعلق متفرق مسائل

قبر پر پودہ کا اُگنا

سوال:- اگر کسی قبر پر پودہ اُگ جائے، تو کیا ہمیں اس کا کاٹنا ضروری ہے؟

جواب:- اگر قبر پر پودہ خود بخود اُگ جائے، تو اس کو چھوڑ دے۔ اس کو کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ [۱]

قبر پر پودہ لگانے یا ٹہنی رکھنے کا حکم

سوال:- کیا قبر پر پودہ لگایا جا سکتا ہے یا ٹہنی رکھی جا سکتی ہے؟

جواب:- قبروں پر پودہ لگانا یا ٹہنی رکھنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ نہیں تھا؛ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ [۲]

بارش کی وجہ سے قبر کھل جائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

سوال:- اگر کوئی قبر بارش یا سیلاب وغیرہ کی وجہ سے کھل جائے، تو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:- قبر کو دوبارہ مٹی سے بھر دیا جائے۔ [۳]

عورتوں کی قبروں کو چادر سے ڈھانپنا

سوال:- کیا تدفین کے وقت بالغہ عورتوں یا قریب البلوغ لڑکیوں کی قبروں کو چادر سے ڈھانپنا مستحب ہے؟

جواب:- ہاں، قریب البلوغ لڑکیوں کے لئے وہی حکم ہوگا جو بالغہ عورتوں کا ہے یعنی جب ان کو قبر میں اتارا جائے، تو مستحب یہ ہے کہ قبر کو کسی چادر وغیرہ سے ڈھانپ دیا جائے؛ تاکہ ان کے جسم پر غیر محرموں کی نظر نہ پڑے۔

البتہ اگر کسی وجہ سے (مثلاً تیز ہوا) میّت کے جسم کے کھلنے کا اندیشہ ہو، تو قبر کو چادر سے ڈھانپنا واجب ہوگا۔

قبرستان میں دعا کرتے وقت کس طرف رخ کرنا چاہیئے؟

سوال:- جب کوئی شخص قبرستان جائے اور دعا کرے، تو کس طرف رخ کر کے دعا کرے؟ اسی طرح جب میّت کو دفنایا جائے، تو دفنانے کے بعد جب دعا مانگی جائے، تو کس طرف رخ کر کے میّت کے لئے دعا کرنی چاہیئے؟  کیا قبر کی طرف رخ کر کے دعا کی جائے یا قبر کی طرف پشت کر کے قبلہ رخ ہو کر دعا کی جائے؟

جواب:- جب کوئی شخص قبرستان جائے اور دعا کرے، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قبلہ کی طرف رخ کر کے دعا کرے (یعنی اس کی پشت قبر کی طرف ہو اور اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو)، اسی طرح اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قبر کی طرف رخ کر کے دعا کرے (یعنی اس کی پشت قبلہ کی طرف ہو اور اس کا منہ قبر کی طرف ہو)، اگر چہ دونوں صورتیں جائز ہیں؛ لیکن قبلہ کی طرف رخ کر کے دعا کرنا بہتر ہے۔

البتہ میّت کی تدفین کے بعد جو دعا کی جاتی ہے، اس کے بارے میں حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کر کے دعا کی؛ لہذا میّت کو دفن کرنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کر کے دعا کرنی چاہیئے۔

تدفین سے پہلے میّت کو گھر لے جانا

سوال:- غسل کے بعد جب لوگ میّت کو گھر لے جائیں، تو کس رخ کی طرف میّت کو رکھا جائے؟

جواب:- میّت کو اس رخ پر رکھا جائے جس میں آسانی ہو۔

سوال:- غسل کے بعد جب لوگ میّت کو گھر لے جائیں، تو میّت کو کہاں رکھا جائے؟ کیا اس کو زمین پر رکھا جائے یا اس کو بستر پر رکھا جائے؟

جواب:- دونوں صورتیں جائز ہیں۔

سوال:- اگر میّت کا کوئی مسلمان رشتہ دار نہ ہو، تو کیا میّت کو اس کے غیر مسلم رشتہ دار کے گھر لے جانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:- میّت کو اس کے غیر مسلم رشتہ دار کے گھر لے جانا جائز نہیں ہے۔ محلّہ کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ کسی مسلمان کے گھر میں میّت کو رکھنے کا انتظام کریں یا اس کو جنازہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد لے جائیں۔

جنازہ نماز کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مسجد میں جنازہ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے؛ لہذا جنازہ نماز یا تو مسجد کے صحن (خارج مسجد) میں ادا کی جائے یا مسجد کے باہر اس جگہ ادا کی جائے جو جنازہ نماز کے لئے مقرر کی گئی ہے۔

سوال:- کیا غیر مسلم رشتہ دار میّت کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں؟

جواب:- غیر مسلم میّت کے قریب نہ آئیں؛ بلکہ ان کو میّت سے تھوڑا دور رکھنا چاہیئے۔

میت کو قبلے کی طرف لٹا کر دفن کرنا

سوال:- جب میت کو قبر میں رکھا جائے، تو اس کے جسم کا رخ کس طرف ہونا چاہیئے؟ مثال کے طور پر اگر میت کے دائیں جانب کا رخ قبلے کی طرف ہو، تو کیا اس کو قبر کے سامنے کی دیوار کی طرف لٹایا جائے یا قبر کی پچھلی دیوار کی طرف لٹایا جائے؟

جواب:- مستحب یہ ہے کہ میت کو داہنی کروٹ پر لٹایا جائے؛ تاکہ اس کے پورے جسم کا رخ قبلے کی طرف ہو۔

فقہائے کرام رحمہم الله نے لکھا ہے کہ میت کے پیچھے یا سامنے تھوری مٹی ڈال دی جائے؛ تاکہ اس کا جسم داہنی کروٹ پر باقی رہے اور گرنے سے محفوظ رہے۔

لہذا دونوں صورتیں ٹھیک ہیں، یا تو میت کو اس طرح لٹایا جائے کہ اس کا رخ قبر کے سامنے کی دیوار کی طرف ہو اور تھوری مٹی اس کے پیچھے ڈال دی جائے یا تو اس کو قبر کی پچھلی دیوار کی طرف لٹا کر رکھا جائے اور اس کے سامنے تھوری مٹی ڈال دی جائے؛ تاکہ وہ نہ گرے اور اس کا رخ قبلے سے نہ ہٹے۔

قبر میں قرآن پاک کی آیات رکھنے کا حکم

سوال:- کیا قبر میں قرآن پاک کی آیات مثلا سورہ یٓس یا کوئی اور سورہ رکھنا درست ہے؟

جواب:- قبر میں میت کے ساتھ قرآن پاک کی آیات رکھنا جائز نہیں ہے، لہذا اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔

  محرم رشتہ دار کی عدم موجودگی میں عورت کا دفن کرنا

سوال:- اگر کسی عورت کا انتقال ہوجائے اور جنازہ میں اس کا کوئی محرم رشتہ دار موجود نہ ہو، تو کیا غیر محرم رشتہ دار اس کو دفن کر سکتا ہے؟

اسی طرح اگر کسی عورت کا انتقال ہو جائے اور جنازہ میں اس کے کوئی رشتہ دار موجود نہ ہوں، تو کیا دوسرے مسلمان لوگ اس کو دفن کر سکتے ہیں؟

جواب:- اگر کسی عورت کا کوئی محرم رشتہ دار موجود نہ ہو، تو غیر محرم رشتہ دار اس کو دفن کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی عورت کے رشتہ دار موجود نہ ہوں، تو دوسرے مسلمان لوگ اس کو دفن کر سکتے ہیں۔

میت کی تدفین کے بعد کیا کرنا چاہیئے؟

سوال:- میت کی تدفین کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:- میت کی تدفین کے بعد لوگوں کو چاہیئے کہ وہ میت کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی موت کے بعد کے تمام مراحل اس کے لیے آسان فرمائے اور اس کی گناہوں اور کوتاہیوں کو در گزر فرمائے۔

خود کشی کرنے والے کو کس جگہ دفن کیا جائے؟

سوال:- اگر کوئی شخص خود کشی کر لے، تو اس کو کس جگہ میں دفن کیا جائے؟

جواب:- اگر وہ مسلمان ہے، تو اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

کیا شیعوں کو مسلمان کے قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے؟

سوال:- اگر کسی شیعہ (مرد یا عورت) کا انتقال ہو جائے، تو کیا اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر سکتے ہیں؟

جواب:- شیعہ اور مسلمان کے عقائد اور اعمال مختلف ہیں۔ شیعوں کے عقائد اور اعمال مسلمانوں کی طرح نہیں ہیں۔

شیعہ قرآن مجید کو محرّف مانتے ہیں اور ازواجِ مطہرات (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ازواج) پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں، وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دیتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے (العیاذ باللہ)۔

جو بھی ایسے عقیدہ کا حامل ہو، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ لہذا نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی اور نہ ہی انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

Source:


 

[۱] [۲] مطلب في وضع الجريد ونحو الآس على القبور تتمة يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح ‏المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله تعالى فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية‎ ‎أقول ودليله ما ورد في الحديث من ‏وضعه عليه الصلاة والسلام الجريدة الخضراء بعد شقها نصفين على القبرين اللذين يعذبان‎ ‎وتعليله بالتخفيف عنهما ما لم يبيسا أي يخفف عنهما ‏ببركة تسبيحهما إذ هو أكمل من تسبيح اليابس لما في الأخضر من نوع حياة وعليه فكراهة قطع ذلك وإن نبت بنفسه ولم يملك لأن فيه تفويت ‏حق الميت‎ ‎ويؤخذ من ذلك ومن الحديث ندب وضع ذلك للاتباع ويقاس عليه ما اعتيد في زماننا من وضع أغصان الآس ونحوه، وصرح بذلك ‏أيضا جماعة من الشافعية، وهذا أولى مما قال بعض المالكية من أن التخفيف عن القبرين إنما حصل ببركة يده الشريفة – صلى الله عليه وسلم – أو ‏دعائه لهما فلا يقاس عليه غيره. وقد ذكر البخاري في صحيحه أن بريدة بن الحصيب – رضي الله عنه – أوصى بأن يجعل في قبره جريدتان، والله ‏تعالى أعلم  (رد المختار ۲/ ۲٤۵)‏

[۳] ويسنم القبر قدر الشبر ولا يربع ولا يجصص ولا بأس برش الماء عليه (الفتاوى الهندية ۱/۱٦٦)‏

( ويسنم القبر ) ويكره أن يزيد فيه على التراب الذي خرج منه ويجعله مرتفعا عن الأرض قدر شبر أو أكثر بقليل ولا بأس برش الماء حفظا له قال الطحطاوي : قوله ( ويسنم القبر ) ندبا وقيل وجوبا والأول أولى وهو أن يرفع غير مسطح كذا في المغرب وقوله بعد ويجعله مرتفعا الأولى تقديمه على قوله ويكره أن يزيد الخ وقوله قدر شبر هو ظاهر الرواية وقيل قدر أربع أصابع وتباح الزيادة على قدر شبر في رواية كما في القهستاني قوله ( ويكره أن يزيد فيه على التراب الذي خرج منه ) لأنها بمنزلة البناء بحر وهو رواية الحسن عن الإمام وعن محمد لا بأس بها (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص٦۱۱)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …